لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت میں صحافت کو زنجیریں پہنائی گئیں۔ صحافیوں کو آف ایئر کیا گیا۔ سیاسی کارکنان کو اختلاف رائے کی بنیاد پر جیلوں میں ٹھونسا گیا۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ لیکن معذرت کے ساتھ اس وقت نظام عدل سویا ہوا تھا، اس وقت عدالتیں سوئی ہوئی تھیں اور ہمارے مقدمات نہیں سنے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب ریٹائر ہوجاتے ہیں تو پھر نجی مجلسوں میں آکر معذرت کر رہے ہوتے ہیں، کسی کا نام نہیں لوں گا لیکن سوال اٹھایا گیا تو پھر نام بھی لوں گا، تو پھر آپ اسی وقت گندے کام اور گندا دھندا نہ کریں، جمہوریت کو آلودہ نہ کریں، آئین پر شب خون نہ ماریں اور آئین سے کھلواڑ نہ کریں’۔
https://twitter.com/Shahzad_IQBALpk/status/1549394012381106183?s=20&t=L3eb-rjMv9QCTlZv-TxZMA
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اخبار کی خبروں پر نیب کارروائی کرتی تھی، اب کارروائی کیوں نہیں ہو رہی ہے، نیب تو ایک آزاد ادارہ ہے۔ عمران خان کے دور میں لوگوں کو بدنام اور رسوا کیا گیا اور کیونکہ پونے چار سال میں کسی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں آسکا، ثبوت اور شواہد ہی کوئی نہیں تھا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ نیب کے ڈریکونین دور اور قانون کے منہ پر طمانچہ ہیں، اس لیے آج اگر کوئی نیب کے پرانے قانون کی حمایت کرے، وہ کوئی بھی اور اس کا تعلق کسی بھی جگہ سے ہو وہ آئین اور جمہوریت کا دوست نہیں ہوسکتا، وہ انصاف کی بات نہیں بلکہ انصاف کا خون ہی ہوگا’۔
انہوں نے کہا کہ کسی کی بھی حکومت ہو نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے نہیں ہونے چاہیں لیکن ماضی میں ایسا نہیں ہوا اور آخر کار طویل قیدیں کاٹنے کے بعد ایک،ایک کرکے پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں سے لوگ آئے، ان فیصلوں کو پڑھا جائے، وہ فیصلے منہ سے بولتے ہیں’۔