شوخ چنچل لب و لہجے میں اچانک ٹھہراؤ سا آگیا تھا مجھے لگا جیسے شیلا کا وجود تو میرے سامنے ہے مگر وہ وہ کہیں اور جا چکی ہے۔ خوبصورت آنکھوں والی گوری چٹی شیلا کو میک اپ آرٹسٹ بننے کے ساتھ ساتھ ماں بننے کا بھی شوق تھا۔ جب اس نے کہا کہ کاش میں بھی تمہاری طرح ہوتی۔ میں بھی شادی کرتی گھر بساتی بچے پیدا کرتی تو مجھے خدا کی یہ جینڈر تقسیم ناانصافی لگی۔ وہ نسوانی خواہشات سے بھرپور تھی۔ آخر کیا حکمت ہوئی ہوگی اس تقسیم میں؟
شیلا نے بھی عام لڑکیوں کی طرح محبت کی اور پھر چار سال سے ایک ہی انسان کانام پروئے جارہی ہے۔ جب میں نے شیلا سے پوچھا کیا وہ بہت خوبصورت ہے تو اس نے آنکھیں بند کر کے چند لمحے کچھ سوچا جیسے اس کے تصور کو الفاظ دینے کے لیے لفظوں کو تلاش کررہی ہو اور پھر اچانک بیگ کھولنے لگ گئی شاید اسے اپنے محبوب کے لیے مناسب الفاظ نہیں ملے تھے اور بیگ میں موجود تصویر نکال کر دکھائی بیچاری کو ساتھ تو نہ مل سکا لیکن اس نے آج بھی اس کی خبر رکھی ہوئی ہے۔ شیلا کے مطابق اس نے اس لڑکے کو آخری بار چار مہینے اور دس دن پہلے دیکھا تھا یعنی وہ انگلیوں پہ دن گن رہی ہے اس کی اگلی جھلک کے لیے بیقرار۔
ہم دونوں کی گفتگو کافی دیر سے چل رہی تھی میں اس سے معاشرتی رویوں پہ سوال کررہی تھی کہ اسے ان بے انصافیوں کے ساتھ ساتھ اسے اپنی ناکام محبت بھی یاد آگئی۔ وہ ایک ادھوری شخصیت تھی مگر میں نے دیکھا وہ جذبات اور احساسات سے ایک مکمل عورت تھی۔ شیلا کہہ رہی تھی کہ اسے جب کوئی کپل (جوڑا) نظر آتا ہے تو اسے غصہ آتا ہے شدت سے اپنے ادھورے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ کیا ہوجاتا اگر اللّٰہ اسے عورت بنادیتا۔ وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ گول گپے کھانے جاتی۔ آئس کریم کھانے آزادانہ جاتی۔ اسے اس کا شوہر پھولوں کے گجرے خرید کر پہناتا۔ شیلا کی ننھی سے خواہشات سن کر مجھے "اللہ کے ہر کام میں کوئی بھلائی ہوتی ہے" والی بات جھوٹی لگنے لگی۔ شیلا جیسے لوگ نہ صرف جسمانی طور پہ معاشرتی رویوں کی بےثباتیوں کو جھیل رہے ہیں بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کی بھی جنگ لڑرہے ہیں۔ جن تمناؤں کا شیلا نے ذکر کیا وہ تمناہر لڑکی کی ہوتی ہے۔ ہر عورت چاہتی ہے اس کا من چاہا مرد اس کے ناز اٹھائے۔ اس پہ خرچ کرے۔ اسے آئس کریم کھلانے لے کر جائے۔ گفٹس دےاور وہ خود اس مرد کے بچے پیدا کرے اس کے ساتھ ایک پیاری سی دنیا بنائے۔
شیلا کی تمام باتیں جائز تھیں۔ اس نے کچھ انہونا نہیں کہا تھا بس اس کے ساتھ انہونی خدا نے کردی تھی۔ شیلا کا ہاتھ بھائی نے توڑ دیا تھا۔ مار پیٹ سے تنگ آکر شیلا گھر سے بھاگ آئی تھی لیکن اس کے باوجود وہ اپنے چھوٹے بھائی کے تمام تعلیمی اخراجات اٹھارہی ہے۔ اس کی زندگی میں دو لوگ اہمیت رکھتے تھے۔ ایک اسکا محبوب اور دوسری اس کی ماں۔ وہ ماں کے لیے بالکل ایسے ہی فکر مند تھی جیسے بیٹیاں ماں سے بچھڑ کر پریشان رہتی ہیں۔ اسے محبت کے ادھورے رہنے کا درد ستارہا تھا۔ وہ اپنے ادھورے پن کے ساتھ ساتھ اپنی ادھوری محبت کا بوجھ بھی اٹھائے پھر رہی تھی جسے وہ کسی قیمت پر کم نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس کے مطابق اسے مردوں کی کمی نہیں لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں۔ دل اسی کا طواف کررہا ہے۔وہ ساری عمر اس شخص کو تصورات میں بٹھا کر رکھناچاہ رہی تھی۔ حقیقت میں ملاپ نہ سہی تصورات میں ہی سہی۔ خیر شیلا مجھ سے گفٹ کا وعدہ کر کے ہنستے مسکراتے رخصت ہوئی۔لیکن مجھے اب اس کا ہنسنا، چہچہانا سب اداکاری ہی لگا۔ شاید میں اس کی زندگی کے ان چند افراد میں سے تھی جنہوں نے اس سے انسانوں کی طرح بات کی۔ اس کے دکھ کو محسوس کرنے کی کوشش کی۔ میں نے پہلی بار اتنے قریب سے اس مخلوق کو دیکھا جسے دیکھ کر ہم آوازیں کستے ہیں۔ جس کو ہم انسانوں میں نہیں گنتے۔ جس کے احساسات سے ہم بےخبر ہیں۔ جسے ہم نے ابھی تک صرف ڈائیلاگ بازی کی حد تک ہی انسان سمجھا ہے۔
جب سے میں شیلا سے ملی تب سے میں سوچ رہی ہوں کہ اس دنیا میں شیلا کے ادھورا ہونے سے کیا بھلائی؟ شیلا اگر مکمل پیدا ہوتی تو کیا برائی تھی؟ دنیا نے تباہ ہوجانا تھا؟ اگر ادھوری پیدا کر ہی دی تھی تو اسے جذبات بھی نامکمل دیے ہوتے ناں۔ اسے کیوں ایسے معاشرے میں پیدا کیا جہاں منافقت ہے۔ اس جہان میں جہنم سے گزر کر کیا اگلے جہان میں اسے جنت ملے گی؟