ڈٰی آئی خان میں 19 اگست 2022 کی رات تحصیل پروا کے اُن باسیوں کے لئے وہ خوفناک رات تھی جسے شاید ہی وہ بھلا سکیں۔ جب گدھ نالا یا ہزارا پکہ نالا میں رات 11 بجے کے قریب سیلابی ریلہ ہزارہ پکہ گاؤں میں داخل ہوا تو پورے گاؤں میں کہرام برپا تھا۔ نالے کے قریب آباد گاؤں ہزارہ پکہ سمیت چاہ گاڈی، چاہ شیخ، کچہ ہزارہ، ببر پکہ، بستی دیسی، جھوک جھنڈیر، جھوک ماچھی شرقی اور غربی گاؤں سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ اُس وقت سیلاب کی کہانی میں نے ایک مقامی چینل کے لیے رپورٹ کی تھی۔
انڈس ہائی وے سے اڑھائی کلومیٹر فاصلے پر شمال میں ہزارہ پکہ گاؤں واقع ہے، جس سے متصل تاریخی ڈرین ہزارہ پکہ یا گدھ نالا کے نام سے بہتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ڈی آئی خان میں 2022 کے سیلابی پانی کی تباہ کاریاں 2010 کے سیلاب سے زیادہ تھیں۔ پراونشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈیٹا کے مطابق سال 2022 کے سیلاب میں ڈی آئی خان کی پانچ تحصیلوں میں سب سے زیادہ پروا متاثر ہوئی تھی۔ پروا میں 58، تحصیل ڈی آئی خان میں 28، تحصیل درابن میں 32 اور ایف آر ڈی خان تحصیل درازندہ میں 16 مقامات پر بارشوں اور سیلابی ریلوں نے لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ یاد رہے کہ 2022 کے سیلاب میں ضلع ڈی آئی خان خیبر پختونخوا میں سب زیادہ متاثر ضلع تھا۔
کیا اس سال ڈی آئی خان میں سیلاب آ سکتا ہے؟
نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی نے اپریل میں آگاہ کر دیا تھا کہ پاکستان میں اس سال 72 فیصد تک سیلاب آنے کے امکانات ہیں۔ پاکستان میں مون سون بارشوں کا آغاز ہو چکا ہے اور ضلع ڈی آئی خان میں خصوصاً بڑے اور چھوٹے بارانی نالوں اور نہروں کے قریب آباد لوگ اپنے گھروں کے اجڑنے کے لئے پھر سے خوف زدہ ہیں۔
'جب بھی گاؤں میں خبر آتی ہے کہ نالے میں پانی آیا ہے تو فوراً ذہن میں پچھلے سال کا منظر آ جاتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ سیلاب پھر سے ہمارے گھر اجاڑ دے'۔ ہزارہ پکہ گاؤں کے 20 سالہ نوجوان عالیان خان نے مایوسی سے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ 2010 کے سیلاب میں میری عمر 8 سال تھی، سیلاب نے ہمارے گھر کو تباہ کیا تو ہم چچا کے گھر درابن خورد چلے گئے، جہاں ہم نے تقریباً تین مہینے گزارے۔ 2022 کا سیلاب تو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ہزارہ پکہ تحصیل کے 70 فیصد علاقے میں سیلابی پانی کئی دنوں تک کھڑا تھا۔ عالیان نے بتایا کہ ہم اکثر گھر میں بات کرتے ہیں کہ یہاں سے نقل مکانی کر لیں اور کسی دوسرے ضلع میں آباد ہو جائیں۔
2022 کے سیلاب نے عالیان کے گھر کو جزوی طور پر متاثر کیا تھا، لیکن گاؤں میں ان کے رشتہ داروں کے گھر مکمل طور پر سیلابی پانی میں بہہ گئے تھے۔ عالیان کو حکومت اور اداروں سے کوئی امید نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ گدھ نالہ جہاں جہاں پھٹا تھا وہاں اب تک پروٹیکشن وال یا شہر پناہ نہیں بنائی گئی۔
ڈی آئی خان کی ضلعی اتنظامیہ سے ہزارہ پکہ، ہزارہ مکڑ اور ضلع میں دوسرے چھوٹے بڑے ڈرینوں کے قریب آبادی کو تحفظ دینے، سیلابی صورت حال سے نمٹنے اور 2022 میں جہاں جہاں یہ نالے سیلابی پانی سے پھٹے تھے، ان کی مرمت یا شہر پناہ جو کہ مقامی لوگوں کے مطابق ابھی تک نہیں بنائے گئے، کے حوالے سے کئی بار رابطہ کیا گیا اورسوالات بذریعہ واٹس ایپ بھی بھیجے گئے لیکن ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
ہزارہ پکہ اور مکڑ نالے کے قریب بسنے والے لوگ سیلاب کی زد میں کیوں ہیں؟
کوہ سُلیمان پہاڑی سلسلے کے چار دروں سے نکلنے والا پانی ہزارہ پکہ نالے میں گرتا ہے۔ تحصیل درابن سے نقل مکانی کرنے والے ہزارہ پکہ کے 54 سالہ سماجی کارکن سیف اللہ بیقرار نے ڈٰی آئی خان میں پانی کے وسیلوں، تقسیم و ترسیل کے حوالے سے کام کیا ہے۔ انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ ہزارہ پکہ ایک تاریخی نالا ہے۔ اس نالے میں گومل زام سے نکلنے والے لونی نالے، شیخ حیدر زام، درابن زام اور چودھوان زام کا پانی آتا ہے، (زام مقامی زبان میں پانی کے بہاؤ کو کہتے ہیں) جو کہ بعد میں چشمہ رائٹ بینک کینال (سی آر بی سی) نہر سے گزر کر ایک بڑے سیلابی ریلے کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جس میں سیلابی پانی کا کچھ حصہ نئی ویلی کی ڈرین میں چلا جاتا ہے اور زیادہ ہزارہ کے مقام پر انڈس ہائی وے کو کراس کر کے دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔
اسی طرح ڈرین مکڑ تحصیل ہیڈ کوارٹر پروا سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر جانب جنوب رودکوہی کی دوسری بڑی آبی گزرگاہ ہے جو مکڑ نالا کے نام سے مشہور ہے۔ اس ڈرین میں سی آر بی سی پر بنائے گئے چار سیفن سے گزرنے والی آبی رود کوہی نالوں کا پانی مکڑ نالے میں یکجا ہوتا ہے۔ سیف اللہ نے بتایا کہ 2010 میں اس ڈرین نے بڑی تباہی مچائی تھی۔ اس نالے کے سائیڈ بند 2010 میں بڑکی اور جھوک لیلی کے مقام پر ٹوٹ گئے۔
سیف اللہ نے مزید بتایا کہ ڈی آئی خان کی آدھی سے زیادہ آبادی اب سیلابوں کی زد میں ہے جس کی بڑی وجہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی عدم توجہ ہے۔ 2010 اور 2022 کے سیلاب میں جو سائیڈ بند ٹوٹے تھے آج تک مرمت نہیں کیے گئے اور اب بھی بہت سی جگہوں پر کٹاؤ جاری ہے۔ درابن تحصیل جہاں زیادہ پسماندگی ہے، درابن شیخ حیدر زام، گومل زام اور چودھوان زام کے سنگم پر واقع ہونے کے باعث شدید ترین سیلابی صورت حال سے دوچار رہتی ہے، وہاں زیادہ تر گھر بھی کچے ہیں۔
سیف اللہ نے کہا کہ ڈی آئی خان میں پانی کی تقسیم و ترسیل کا مسئلہ ایک بہت بڑا اور گھمبیر مسئلہ ہے۔ نالوں کی صفائی اور سائیڈ والز کی ذمہ داری نا صوبائی محکمے لیتے ہیں اور نا وفاقی یعنی واپڈا۔ سیاسی پارٹیوں کے منتخب نمائندے بھی اس مسئلے پر توجہ نہیں دیتے۔ ضلعی انتظامیہ سمیت واپڈا کے زیر نگرانی نالوں کی صفائی 20 سالوں سے نہیں ہوئی۔ مون سون سیزن میں یہاں کے لوگ دوسرے ضلعوں کی نسبت سیلاب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ سیف اللہ نے ضلع میں پانی کے حوالے سے ہاتھ سے بنا ایک نقشہ بھی فرام کیا ہے۔
ڈی آئی خان میں آبپاشی کا نظام اور پانی کی بد انتظامی
ڈی آئی خان کوہ سُلیمان پہاڑی سلسلے کے جنوب میں واقع ہے۔ جنوبی پختونخوا کے اس ضلع میں زندگی دریائے سندھ کے کنارے سے شروع ہوتی ہے۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے سرحدی ضلع میں پانی کی تقسیم وفاق اور صوبے کے زیر نگرانی ہے۔ ضلع میں آبپاشی کے لئے سب سے بڑا ذریعہ چشمہ رائٹ بینک کینال سی آر بی سی نہر ہے۔ ضلع میانوالی میں دریائے سندھ پر چشمہ بیراج سے دو نہریں، مشرق سے چشمہ جہلم لنک کینال اورمغرب سے سی آر بی سی نکالی گئیں ہیں۔ سی آر بی سی پروجیکٹ 80 کی دہائی میں شروع ہوا جو کہ 2002-03 میں مکمل ہوا۔ 272 کلو میٹر طویل مین نہر اور اس کے ذیلی نظام سے قریباً ڈھائی لاکھ ہیکٹر زمین کو زیر کاشت لایا گیا ہے، جس میں ڈی آئی خان کا 61 فیصد اور ڈیرہ غازی خان کا 39 فیصد علاقہ آتا ہے۔ سی آر بی سی سے 41 چھوٹی نہریں نکل کر ڈی آئی خان کے دور دراز علاقوں کو سیراب کرتی ہیں۔
ضلعی محکمہ ایرگیشن کے مطابق ضلع میں سی آر بی سی سسٹم سمیت کُل 54 چھوٹی بڑی ڈرینیں ہیں، جس میں 25 نالے ضلع ڈی آئی خان کے پہاڑ پور ایرگیشن ڈویژن کے زیر نگرانی ہیں جبکہ 29 واپڈا کے زیر نگرانی ہیں۔ ان میں پشہ نالا، ٹیکن نالا، گدھ نالا، مکڑ نالا اور رمک نالے کا شمار بڑے نالوں میں ہوتا ہے۔ ڈرین نمبر 22 ہزارہ پکہ نالا بھی واپڈا کے زیر نگرانی ہے۔ یہ بارانی یا رودکوہی نالے کوہ سلیمان کے سلسلے سے شروع ہو کر مین سی آر بی سی نہر سے گزرتے ہوئے دریائے سندھ میں جاتے ہیں۔ ضلعی محکمہ ایریگیشن سے جب نالوں کی صفائی کے متعلق پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ایریگیش ڈیپارٹمنٹ کے پاس فنڈز کی کمی کے باعث صفائی ممکن نہیں ہوئی۔ محکمے کے مطابق مقامی بااثرافراد ان نالوں سے اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے بند ڈالتے ہیں جو کہ مون سون سیزن میں سیلابی پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، جس سے قریب آباد گاؤں میں سیلاب کا خدشہ رہتا ہے۔
نام اور عہدہ نہ بتانے کی شرط پر چشمہ رائٹ بینک کینال واپڈا کے اہلکار نے بتایا کہ محکمہ ہر سال 6 ارب سے زیادہ ریونیو حاصل کرتا ہے لیکن نالوں کی بھل صفائی کے لئے فنڈز نہیں ہوتے۔
اہلکار نے چشمہ رائٹ بینک کینال واپڈا ڈیپارٹمنٹ کے زیر نگرانی 29 چھوٹے بڑے نالوں کی صفائی 20 سال سے نا ہونے کی تصدیق کر دی۔ اس نے مزید بتایا کہ 2022 کے سیلابی پانی سے ہزارہ پکہ، مکڑ نالوں سمیت دوسرے نالے جہاں پھٹے تھے وہاں مستقل طور پر پروٹیکشن والز بنانے کے لئے حکام بالا کو آگاہ کیا گیا ہے لیکن تاحال خاموشی ہے۔ بڑے بارانی نالوں کو صوبے کے زیر نگرانی لانے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں اہلکار نے کہا کہ ایسا اس لئے ممکن نہیں ہو سکتا کیونکہ پھر پنجاب کا پانی سے اختیار ختم ہو جائے گا۔
مون سون سیزن میں ضلع میں سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ڈٰی آئی خان واپڈا نے بتایا کہ اب بھی محکمہ کوہ سیلمان پر حالیہ بارشوں سے آنے والے 8000 کیوسک پانی سے لڑ رہا ہے اور پانی کو منتقل کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس نے بتایا کہ پانی کو گومل زام ڈیم میں منتقل کرنا بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔
کلائمیٹ چینج اور شدید موسمی واقعات
دنیا میں انسانی سرگرمیوں کی بدولت درجہ حرارت میں اضافے سے شدید موسمی واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین اور اقوم متحدہ کے کلائمیٹ پینل (آئی پی سی سی) کی حالیہ رپورٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ ایشیا اور جنوبی ایشیا سمیت دنیا میں سیلاب آنے کا خطرہ بڑھ چکا ہے۔ امریکہ کی نیشنل سنٹر فار انوائرنمنٹل پریڈیکشن کے مطابق 3 جولائی 2023 اب تک ریکارڈ ہونے والے دنوں میں گرم ترین دن تھا۔ جنوبی امریکہ، افریقہ اور چائنہ سمیت کئی ملکوں میں درجہ حرارت زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔
انوائرنمنٹل جرنلسٹ محمد داؤد خان نے پاکستان میں شدید موسمی واقعات کے حوالے سے کہا کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے خُشک سالی، سمندری طوفان، دریاؤں میں سیلاب اور شدید بارشیں ہونے کے سائنسی شواہد موجود ہیں۔ سب سے زیادہ کمزور طبقے متاثر ہو رہے ہیں۔ داؤد خان نے پاکستان میں پانی کی بدانتظامی اور کلائمیٹ چینج کے حوالے سے کہا کہ اگر اس سنگین مسئلے کو جلد از جلد حل نہیں کیا گیا تو مستقبل قریب میں پاکستان شدید موسمی واقعات سے سب زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہوگا۔
کلائمیٹ چینج دنیا کے لئے خطرہ ہے لیکن جہاں ناانصافی، قدرتی وسائل میں بد انتظامی عروج پر ہو وہاں زیادہ لوگ متاثر ہوں گے۔ ضلع ڈی آئی خان میں پانی کی تقسیم و ترسیل پر صوبوں کی لڑائی، متعلقہ محکموں کی خاموشی، بااثر لوگوں اور شدید موسمی واقعات کی زد میں ڈی آئی خان کے نوجوانوں کا مستقبل کتنا محفوظ ہے؟ ہزارہ پکہ گاؤں میں اگر اس بار بھی سیلاب آیا تو عالیان خان کے مطابق یہاں سے نقل مکانی کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہو گا۔