اب ایک عمومی رائے یہ بن چکی ہے کہ ن لیگ کے حالیہ سیاسی بحران میں شہباز فیکٹر نے ہی اپنے بڑے بھائی اور پارٹی کے لئے مقتدر حلقوں سے بہت سی رعایتیں حاصل کیں جس کے باعث پارٹی کا وہ حشر نہ ہوا جو اس سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ تاہم کچھ مبصرین اس سے متفق نہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ نواز شریف کا مزاحمت پر مبنی بیانیہ تھا جو مسلے جانے پر انقلاب کی خوشبو بکھیرتا تھا اور عوام اس کی جانب کھنچے چلے آتے تھے۔
تاہم معاملہ جو بھی ہو لگتا ہوں ہے کہ شوگر تحقیقات میں عمران خان کے ساتھی اور فنانسر جہانگیر ترین کے درمیان دوریاں پیدا ہونے، آرمی چیف کی مدت میں توسیع کی مس ہینڈلنگ، معیشت کا بھرکس نکلنے اور کرونا کے معاملے میں بدترین بد انتظامی اور نا اہلی نے مقتدر قوتوں کو متبادل کے لئے ادھر ادھر دیکھنے پر مجبور کیا ہے۔
اور یہی وہ موقع ہے جس پر شہباز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے کنویں سے کشید کردہ آب حیات کی بدولت ن لیگ کے شجر برباد پر رعنائی آتی نظر آرہی ہے۔
ملک کے سینئر صحافی اور حکومتی کی آمد جامد کے بارے میں درست پیش گوئیاں کرنے والے سہیل وڑائچ نے اپنے بی بی سی اردو کے لئے لکھے گئے کالم میں بھی اس قسم کے سوال اٹھاتے ہوئے بتایا ہے کہ شہباز شریف اکیلا نہیں اسکے پیچھے بھی کوئی ہے۔
سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ حکومتی اور نیب کارروائیوں نے ثابت کر دیا کہ شہباز شریف لُگے (اکیلے کا پنجابی کا متبادل) نہیں ہیں ان کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی کھڑا ہے۔
'وہ لکھتے ہیں کہ ایک طرف نیب ان کے گھروں پر چھاپے مار رہا تھا لیکن دوسری طرف آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف، پاک فضائیہ کے سربراہ مجاہد انور خان اور چینی سفیر شہباز شریف کی طبیعت پوچھنے کے لیے فون کر رہے تھے۔ حکومت گرفتاری چاہ رہی تھی مگر عدالت نے اوپر نیچے دو بارحفاظتی ضمانت دے کر فی الحال شہبار شریف کو کچھ دنوں کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ اس سارے معاملے میں حکومت ایکسپوز ہوئی ہے۔'
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ب آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری کے مسئلے پر حکومت اور ملک کا طاقتور ریاستی ادارہ فوج ایک صفحے پر نہیں ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت شہباز شریف کو گرفتار کرنے کے در پے ہو اور آرمی چیف اسی کو فون کر دے۔ گویا دونوں اداروں یعنی حکومت اور فوج کی سٹریٹجی میں فرق آ چکا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ ایک سال سے سٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے درمیان باہمی اعتمادی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ جس میں نواز شریف کی بیرون ملک منتقلی، آرمی چیف کے معاملے پر ن لیگ کی خاموشی اور نون لیگی حلقوں کا خیال ہے کہ خیر سگالی کے اس پیغام کا بہت مثبت اثر ہوا۔ یہ لیگی حلقے آپس میں یہ کہتے بھی سنے گئے ہیں کہ تحریک انصاف کی طرف سے آرمی چیف کے عہدے میں توسیع کے معاملے میں مِس ہینڈلنگ میں حکومتی بدنیتی شامل تھی اس لیے ریاستی ادروں میں اسکا اچھا تاثر نہیں لیا گیا۔ اگر مفروضے کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر شہباز شریف کو مشکل وقت فون کر کے تسلی دینے کا پیغام بھی اسی تسلسل کی کڑی لگتی ہے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ اس کے اقتدارکی سب سے بڑی ضمانت یہی ہے کہ فی الحال دور دور تک ان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ لیکن اگر انہوں نے اپنے گھر کو نہ سنوارا تو بھٹو اور نواز شریف کا متبادل بھی تو آ گیا تھا، عمران کا بھی کوئی متبادل مل ہی جائے گا۔ہو سکتا ہے کہ وہ متبادل نہ نون لیگ سے ہو اور نہ ہی پیپلز پارٹی سے بلکہ تحریک انصاف سے ہی کوئی ایسا چہرہ سامنے لایا جائے جس پر اپوزیشن کو بھی اعتماد ہو اور یوں اگلے انتخابات تک گاڑی چلانے کا عارضی انتظام ہو جائے۔
یاد رہے حکومتی اتحادی بی این پی مینگل حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں۔