’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس سے آئین اور قانون کی عملداری بحال ہوئی‘

04:45 PM, 19 Jun, 2020

نیا دور
جمعے کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف بنائے گئے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کیا، جس کے بعد چار بجے کے لگ بھگ فیصلہ سنا کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درخواست کو منظور کرتے ہوئے حکومت ریفرنس کو معطل کیا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو حکم دیا کہ وہ فائز عیسیٰ کی بیوی سے لندن جائیدادوں کے حوالے سے تفشیش کریں، جس کے بعد ملک میں لوگوں کی جانب سے مختلف ردعمل آ رہا ہے جبکہ اس کے وقت سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے۔

کچھ لوگ اس فیصلے کی حمایت کر رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس فیصلے سے ملک میں آئین اور قانون کی عملداری بحال ہوئی اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور میاں ثاقب نثار نے جو اعلیٰ عدلیہ کا چہرہ مجروح کیا تھا وہ آج اصلی شکل میں بحال ہوا جبکہ دوسری جانب کچھ لوگ اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جب سپریم کورٹ کے اپنے جج نشانے پر تھے تو انھوں نے خود کو NRO دیا اور اپنے جج کو بچا لیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس کے حوالے سے آج سپریم کورٹ میں کچھ قانونی ماہرین سے بات کی اور ان سے اس فیصلے کے حوالے سے رائے پوچھی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان سے وابستہ شفقت عباسی ایڈووکیٹ نے نیا دور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے، جس نے ملک میں آئین اور قانون کی عملداری کو بحال کیا جو پاکستان کی تاریخ میں بہت کم ہوا ہے کہ جب ملک کے طاقتور حلقے کسی شخص کے خلاف ہوں اور فیصلہ ان کے حق میں آئے تو یقینی طور پر عدلیہ اور ملک کی تاریخ میں ایک بڑا فیصلہ ہے، جو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر جج صاحب کے بیوی کے خلاف کوئی کیس ہے، تو ان کے لئے بہت سارے فورمز ہے جہاں ان سے پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے مگر یہ فیصلہ طاقتور حلقوں کا تھا۔ اس لئے انہوں نے ریفرنس فائل کیا مگر ریفرنس اور عدالتی کارروائی سے یہ معلوم ہوا کہ حکومت نے یہ ریفرنس بہت جلدی میں تیار کیا تھا، جس کے لئے انھوں نے کوئی تیاری نہیں کی تھی اور نہ قانونی پیچیدگیوں پر غور کیا تھا۔ اس لئے نہ صرف ریفرنس زمین بوس ہوئی بلکہ ملک کے باشعور طبقوں میں حکومت کا ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی۔

شفقت عباسی ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ کچھ لوگ پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں کہ جج کے ساتھ رعایت کی گئی، تو یہ غلط ہے کیونکہ وہ بطور جج نہیں بلکہ ایک پیٹیشنز کے طور پر قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے اور خود کو احتساب کے لئے پیش کیا، جو ملکی تاریخ میں بہت کم ہوا ہے مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ تاریخ بھی رقم کی اور کٹہرے میں کھڑے ہوگئے اور عدالت میں درخواست کی کہ میں ایک جج نہیں بلکہ قانون کے کٹہرے میں بطور درخواست گزار کھڑا ہو اور میرے ساتھ قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔

انھوں نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ عدالت نے ان کو کوئی ریلیف نہیں دی بلکہ ان کا معاملہ ایف بی آر میں بھیجا تو یقینی طور پر ریلیف نہیں، اگر عدالت چاہتی تو ان کو کلین چٹ دے سکتے تھے، مگر ایسا نہیں کیا۔

عباسی ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ پاکستان کے تمام بارز نے ملک میں قانونی عملداری کو یقینی بنایا اور آج بھی بارز نے قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑے ہو کر آئینی اور قانون کے علم کو بلند رکھا۔

سپریم کورٹ سے وابستہ امجد اقبال قریشی ایڈووکیٹ نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے پیٹیشن منظور ہوئی اور عدالت نے حکومتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا مگر اب بھی جسٹس فائز عیسیٰ کا اصل امتحان باقی ہے اور اب اس کا دارومداد ایف بی آر پر ہے۔ تاہم اس فیصلے میں ایک پیش رفت ہوئی کہ اس کو ایف بی آر کے حوالے کیا گیا اور اب فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے اور سات دن کے اندر اندر نوٹس دیں گے، اب یہ معاملہ وہاں پر ہے اب دیکھا جائے گا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بیگم کی جائیدادیں کیسی خریدی گئی اور ٹیکس ادا کرنے کے معاملات ٹھیک ہیں یا غلط۔ لیکن اس میں بھی ایک نشاندہی کی ضرورت ہے کہ عدالت صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے معاملات دیکھ رہی ہے نا کہ ان کی بیوی کے۔

انھوں نے کہا کہ اگر ان جائیدادوں میں جسٹس فائز عیسی کی بیوی نے کوئی قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور اس میں جسٹس فائز عیسیٰ کا کوئی کردار نہیں بنتا تو پھر انکم ٹیکس کے قوانین کے تخت فائز عیسیٰ صاحب کے بیوی کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی نہ کہ جسٹس عیسیٰ صاحب کے خلاف لیکن اگر ان کے ان جائیدادوں سے کوئی تعلق بنتا ہے تو ظاہر سی بات ہے پھر کونسل اُن کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی۔
مزیدخبریں