اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے نجم الثاقب کی درخواست پر سماعت کی۔ دورانِ سماعت بیرسٹر اعتزاز احسن اسلام آباد ہائی کورٹ میں بطور عدالتی معاون پیش ہوئے۔ درخواستگزار نجم الثاقب کے وکیل سردار لطیف کھوسہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کچھ آئینی نکات پر آپ کی معاونت چاہیے ہوگی جس پر اٹارنی جنرل عثمان منصور نے موقف اپنایا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔ جو سوالات سپریم کورٹ میں زیر بحث ہیں ان پر فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ ہمارے 5 سوالات پر ہی معاونت کریں کیونکہ معاملہ بالآخر سپریم کورٹ میں ہی جانا ہے۔ ہو سکتا ہے ہم کوئی فیصلہ دیں تو وہ سپریم کورٹ کیلئے معاونت ہو۔
عدالت نے سوال اٹھائے ہیں کہ کیا آئین اور قانون شہریوں کی کالز کی سرویلنس اور ریکارڈنگ کی اجازت دیتا ہے؟ غیر قانونی طور پر ریکارڈ کی گئی کالز کی ذمے داری کس پر عائد ہوگی؟کون سی اتھارٹی یا ایجنسی کس میکنزم کے تحت کالز ریکارڈ کر سکتی ہے؟ آڈیو ریکارڈنگ کا غلط استعمال روکنے کے کیا سیف گارڈز ہیں؟
عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو عدالتی سوالات کے جواب دینے میں کتنا وقت چاہیے ہوگا؟ عدالت نے کہا کہ ہم آپ کو چار ہفتے کا ٹائم دیتے ہیں چار ہفتوں میں عدالتی سوالوں کا جواب جمع کروائیں اور اس کی نقول فریقین کو بھی فراہم کریں۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو چار ہفتوں میں جواب کروانے کی ہدایت دیتے ہوئے سابق چیف جسٹس کے بیٹے کی خصوصی کمیٹی میں طلبی کے خلاف حکم امتناع میں توسیع کر دی جبکہ درخواست پر سماعت 16 اگست تک ملتوی کر دی گئی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے انکوائری کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں کی گزشتہ سماعت کا حکم جاری کر دیا۔
مبینہ آڈیوز انکوائری کمیشن کے خلاف کیس کے تحریری حکمنامے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے بینچ میں شامل تین ججز پر اعتراض اٹھایا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ تینوں جج صاحبان مقدمہ سننے والے بینچ سے الگ ہو جائیں جبکہ درخواست گزار کے وکیل نے جوابی دلائل دیئے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا۔ بینچ کی تشکیل پر اٹھے اعتراضات کا فیصلہ ہونے تک 26 مئی کا حکمنامہ برقرار رہے گا اور کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ 26 مئی کو سپریم کورٹ نے مبینہ آڈیوز کی تحقیقات کے لیے قائم انکوائری کمیشن کا نوٹیفیکیشن معطل کیا تھا۔