بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے کے بارے میں چند اہم شواہد سامنے آئے ہیں جو یونانی کوسٹ گارڈ (ساحل پر تعینات محافظ) کی جانب سے دیے گئے بیانات سے مختلف ہیں اور شکوک و شبہات کو جنم دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میری ٹائم اینالیٹکس کے پلیٹ فارم ’میرین ٹریفک‘ کی طرف سے ٹریکنگ ڈیٹا کی حاصل کردہ ایک کمپیوٹر اینیمیشن کے اعداد و شمار کشتی ڈوبنے سے قبل سمندر کے اس مخصوص علاقے کی سرگرمیوں کی مکمل نشاندہی کرتے ہیں جہاں تارکین وطن کی کشتی ڈوبی تھی۔
اس علاقے میں موجود دیگر بحری جہازوں کی نقل و حرکت کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ مسافروں سے بھری کشتی سمندر میں ڈوبنے سے قبل کم از کم سات گھنٹے تک حرکت کرنے کے بجائے ایک ہی جگہ پر کھڑی رہی تھی۔
اس ڈیٹا نے یونان کے سرکاری دعوؤں کو مشکوک کر دیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ کشتی کو نیویگیشن میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا اور یہ کہ انھوں نے مدد قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔
تارکین وطن کو لے جانے والی ماہی گیری کی اس کشتی میں کوئی ٹریکر موجود نہیں تھا اس لیے وہ نقشے پر نہیں دکھائی دی۔
ان شواہد کے برعکس کوسٹ گارڈ اب بھی اپنے دعوے پر قائم ہیں کہ اس دورانیے میں کشتی اٹلی کے راستے پر گامزن رہی تھی اور اسے کسی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔
'دی گارڈین' نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بچنے والے تارکین وطن نے کوسٹ گارڈز کو دیے بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی مسافروں کو کشتی کے نچلے حصے میں جانے پر مجبور کیا گیا جبکہ دوسری شہریت کے لوگ اوپر والے حصے میں سوار تھے لہذا کسی حادثے کی صورت میں پاکستانیوں کے بچنے کے امکان کم تھے۔
حادثے میں بچ جانے والے مسافروں نے اپنے بیان میں کہا کہ ڈوبنے سے پہلے ہی پانی کی عدم دستیابی پر کشتی میں 6 اموات ہو چکی تھیں۔ کشتی ڈوبنے سے تین روز پہلے کشتی کا انجن بھی فیل ہو گیا تھا۔
مزید بتایا گیا ہے کہ اس وقت حادثے میں 500 افراد لاپتہ ہونے کا خدشہ ہے۔
نئے بیانات سے یہ معلوم ہوا ہے کشتی کا انجن ڈوبنے سے کئی دن پہلے خراب ہو گیا تھا جس سے اس بات کا امکان پیدا ہوتا ہے کہ عملے نے مدد مانگی ہو گی۔
ان بیانات کے برعکس یونانی حکام کا دعویٰ ہے کہ کشتی میں سوار افراد نے کہا تھا کہ ان کو مدد کی ضرورت نہیں اور کشتی ڈوبنے سے پہلے تک بظاہر کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا جس کی بنیاد پر ان کی مدد کی جاتی۔
گذشتہ بدھ کو تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں اب تک کم از کم 78 افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ابھی تک کم از کم 500 متاثرین لاپتہ ہیں۔
اقوام متحدہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اس سانحہ سے نمٹنے کے لیے یونان کے کئے جانے والے اقدامات پر تحقیقات کی جائیں اور معلوم کیا جائے کہ کشتی ڈوبنے سے قبل ہی بروقت بچاؤ کی کوششیں اور ضروری اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’سمندر میں مشکلات میں گھرے افراد کو ریکسیو کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ بین الاقوامی میریٹائم قانون کا بنیادی اصول ہے۔‘
دوسری جانب یونان کے نگران وزیرِ اعظم ایونس سارمس کا کہنا تھا کہ اصل حقائق اور تکنیکی امور کی جامع تحقیقات کی جائیں گی تاکہ کشتی ڈوبنے کی وجوہات کا تعین کیا جا سکے۔
یونان کی وزارتِ مائیگریشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کوسٹ گارڈز کی کشتی حادثے کا شکار ہونے والی کشتی سے ایک مناسب فاصلے پر موجود تھی۔
تاہم وزارتِ مائیگریشن کے ایک اہلکار مانوس لوگوٹھیٹس نے چینل فور سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یونان کے کوسٹ گارڈ کی جانب سے حادثے کا شکار ہونے والی کشتی کے ساتھ حادثے سے دو گھنٹے قبل رسی باندھنے کی کوشش کی تاکہ ان سے مذاکرات کیے جا سکیں۔
انھوں نے اس حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کشتی کے بالکل قریب آنے کے لیے کیا گیا تاکہ دونوں کشتیاں برابر موجود ہوں۔
انھوں نے کہا کہ ایسا ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے کرنے کی کوشش کی گئی تاہم کشتی میں موجود افراد کی جانب سے ’مزاحمت کی گئی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کوسٹ گارڈز نے جہاز کے کپتان یا ان افراد میں سے جو بھی بات کرنے کے لیے تیار تھا اس سے بات کی کیونکہ کسی نے یونیفارم نہیں پہنا ہوا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کشتی کے ڈوبنے میں کوسٹ گارڈ ملوث نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ یونان کے ساحلی علاقے میں 14 جون بروز بدھ کو کشتی ڈوبنے کا حادثہ ہوا تھا۔ کشتی میں پاکستانی، مصری، شامی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 750 تارکین وطن سوار تھے۔ اس واقعے میں سینکڑوں افراد کی ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
کشتی ڈوبنے سے 78 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 104 کو بچا لیا گیا تھا۔ اس کشتی پر سوار بچائے گئے 104 افراد میں سے 12 پاکستانی شہری بھی ہیں۔
برطانوی میڈیا کا کہنا ہے اندازے کے مطابق کشتی پر 400 پاکستانی تھے جن میں سے صرف 12 زندہ بچے ہیں۔