واضح رہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بابر اعوان اور سابق سیکریٹری قانون جسٹس (ر) ریاض کیانی کو اس کیس میں بری کر دیا تھا۔ بعدازاں مذکورہ جج ایک ویڈیو سکینڈل کے باعث خود بھی عدالت سے فارغ ہو گئے تھے۔
احتساب عدالت کے جج محمد اعظم خان نے راجہ پرویز اشرف، سابق وفاقی سیکریٹری مسعود چشتی، شاہد رفیق کے علاوہ وزارت قانون اور سابق وزارت پانی و بجلی کے دیگر حکام کی جانب سے بریت کے لیے دائر درخواستیں مسترد کیں۔
اس سلسلے میں وکیل دفاع کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ نیب کی جانب سے بیوروکریسی کے خلاف کارروائی کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس کی روشنی میں درخواست گزاروں پر ضابطہ جاتی کوتاہیوں کے لیے مقدمہ نہیں چل سکتا تاہم اس مؤقف کو عدالت نے مسترد کر دیا۔ دلائل کو سمیٹتے ہوئے وکیل دفاع نے عدالت کو بتایا کہ استغاثہ اس سلسلے میں کسی مالی فوائد حاصل ہونے کی نشاندہی نہیں کرسکا۔ انہوں نے کہا تھا کہ استغاثہ کا کیس تھا کہ حکومتی عہدیداران نے منصوبے کی رسمی کارروائیاں وقت پر مکمل نہیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب قانون کے حوالے سے نافذ ہونے والا صدارتی آرڈیننس اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کو اس وقت تک جرم قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک مالی فوائد حاصل کرنے کا ٹھوس ثبوت موجود نہ ہو۔
درخواست گزاروں کے وکیل نے نشاندہی کی کہ استغاثہ نے کیس سے متعلق تمام ریکارڈ 9 جلدوں میں پیش کیا جبکہ وزارت توانائی، کابینہ ڈویژن اور وزارت قانون کے اہم گواہان کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ حکومتی عہدیداران نندی پور منصوبے کے آغاز میں غفلت کے مرتکب ہوئے۔
خیال رہے کہ 5 ستمبر 2018 کو قومی احتساب بیورو نے 7 سیاستدانوں اور عہدیداران کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ نندی پور پاور پروجیکٹ میں 2 سال ایک ماہ اور 15 روز کی تاخیر ہوئی جس سے قومی خزانے کو 27 ارب 30 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔