لگتا ہے اب شاید ایسا کچھ نہ رہے جسکے ہم عادی ہو گئے تھے یا عادی بنا دئیے گئے تھے۔ یقیناً بہت سے نئے سوال جنم لے چکے ھیں اور ان سوالات کے جواب مانگے جائیں گے یا ان سوالات کے جواب ڈھونڈے جائیں گے۔ جو بنیادی سوال جنم لے چکا ھے کہ ہم کس حد تک اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے محفوظ ہیں؟ حکمران طبقہ کہاں تک لوگوں کی بھلائی چاہتا ہے؟ جمہوری قدریں کہاں تک حکمرانوں کو جواب دہ بناتی ہیں؟ وسائل کہاں خرچ ھونے چاہئیں اور کہاں خرچ ہوتے ہیں؟ ایک عام آدمی جو زندگی بسر کرتا ہے اس پہ اس کا کتنا حق ہے؟ کیا اب زندہ باد نعروں پہ زندہ رہا جاسکتا ہے؟ کیا مذہب کا دیا ہوا سیاسی نظام ایک عام آدمی کے بنیادی حقوق کا تحفظ کر سکتا ہے؟ ایسے ڈھیروں سوالات جنم لے چکے ھیں اور ڈھیروں سوالات جنم لیں گے۔
بنیادی سوال جو اب صاحب اقتدار سامنا کریں گے کہ معاشی معاملات میں عام لوگوں کی رائے اور ترجیحات کا کتنا حصہ ہوگا اور خارجہ امور میں عام لوگوں کی رائے کا کتنا احترام کیا جائے گا کہ وہ اپنے اردگرد کے ساتھ کیسا برتاؤ چاہتے ہیں؟
آپ کی بات بجا ایسا سب کچھ دنوں میں ہونے والا نہیں۔ صاحب اقتدار کرونا سے پہلے موجود حالات کو برقرار رکھنے کا ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے اور وقتی طور پہ کامیاب بھی ہونگے۔ مگر اوپر اٹھائے گئے سوالات بھی اب پیچھا چھوڑنے والے نہیں۔
ہمیں کیا چاہیے؟ دنیا بھر میں نااہلیت اور سکہ شاہی کا ڈھونگ اب چلنے والا نہیں۔ اب کرونا نے کہہ دیا اور بھرے مجمے میں کہہ دیا ارے بادشاہ تو ننگا ھے۔