https://www.youtube.com/watch?v=LoRYbLATlKUz
اس میں محترم ضیا ءمحی الدین صاحب فرما تے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان میں اتنی بری طرح شاعری اور کویتا پڑھی جاتی ہے کہ وہ بتا نہیں سکتے۔ پھر وہ بچن صاحب کی نقلیں، اپنے تئیں بھانڈ انداز میں(ناکامی سے) اتارتے ہیں۔ وضاحت کرتا چلو یہ پہلے بھی بچن صاحب کی نقل کرنے کے کوشش کر چکے ہیں اور بری طرح ناکام ہوئے۔ بچن صاحب کے پروگرام 'کون بنے گا کروڑ پتی' کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی اک ایسا پروگرام شروع کیا تھا۔ اب اس کا ذکر تزک بابری میں ملتا ہے۔
پھر یہ فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں کوئی بھی پڑھنے والا غالب کے پہلے شعر کو بھی درست نہیں پڑھ سکتا۔ وہ لوگ 'نقش فریادی' پڑھتے ہی نہیں۔ 'نقشِ فریادی' پڑھتے ہیں کہ فریادی کا نقش۔
اس کے بعد وہ ایک بار پھر ہندوستانی پڑھنے والوں کی نقل ببو برال انداز میں اتارتے ہیں۔ پھر وہ اسی شعر کو اپنے مخصوص انداز میں پڑھتے ہیں۔ آگے چلنے سے پہلے اب ذرا یہ لنک سن لیجئے گا۔ ایک جوان شاعر ہیں راغب اختر ۔ دلی میں رہتے ہیں۔ غالب کا مکمل دیوان پڑھ کر یو ٹیوب پر ڈال چکے ہیں۔ نقش فریادی والا لنک ہی آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ سنیے اور بتائیے کہ کیا یہ 'نقش فریادی' پڑھ رہے ہیں یا شین کے نیچے زیر کی آواز واضح کر کے 'نقشِ فریادی' پڑھ رہے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=wJ_K9_KhHzU
انسان کو خوشامدی رسوا کر دیتے ہیں۔ بہت ساری مثالیں ہیں۔ لنک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ضیاء صاحب بھی بہت سارے خوشامدیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اتنے سارے چمچےدیگ میں کڑ کڑا رہے ہوں اور شور نہ ہو ! سو یہ بھی بول ہی پڑے اور جو بولے اس کی اہمیت کسی 'چول' سے کم نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ چول بہت عظیم چیز ہوتی ہے اگر creativeہو!
ہم ضیاء محی الدین کے بہت بڑے پرستار ہیں۔ ان کا پڑھا ہوا بہت شوق سے سنتے ہیں۔ بائیس برس پہلے تو ان کی ایک محفل پر ڈان اخبار میں review بھی چھاپ چکے ہیں۔ اس محفل میں یہ پڑھتے پڑھتے ایک سے زیادہ دفعہ اٹکے ۔ ہم نے جب یہ بات لکھی تو خود نہیں اپنے چمچوں کے ذریعے ڈان میگزین کی اسوقت کی مدیر خورشید حیدر پر برہم ہوئے۔ ہاں یاد آیا ارشد محمود تھے۔ آجکل ضیاء صاحب کے ماتحت ہیں ناپا میں۔ اسی وقت سے ہیں جب مشرف دور میں ناپا (National Academy of Performing Arts)وجود میں آیاتھا۔
ضیاء صاحب شاید یہ بتلانا چاہ رہے تھے کہ سب پڑھنے والے جاہل ہیں۔ اگر کسی نے ادب پڑھا ، اور کمال پڑھا تو صرف ‘The Zia Mohyeddin’نے۔ ہمیں تو کئی جگہ ضیاء صاحب کے تلفظ میں غلطیاں محسوس ہوتی ہیں لیکن ہم اہمیت نہیں دیتے کیونکہ ان کا تعلق پنجاب کے شہر قصور سے ہے۔ انگریزی کی طرح اردو بھی ان کی مادری زبان نہیں ۔ جب یہ انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں تو بہت ہی اذیت ہوتی ہے۔ پلاسٹک ایکسنٹ لگتا ہے۔ برائن سلور کا دوسرا ورژن محسوس ہوتاہے۔ لگتا ہے برائن سلور جاوید چودھری کو پڑھ رہا ہے۔ دراصل ضیا صاحب حد درجے خودپسندی کا شکار ہیں عامر لیاقت، خلیل الرحمن قمر، پطرس بخاری، زیڈ اے بخاری اور بشیر بدر کی طرح۔
ایک انگریزی فلم ہے Bombay Talkie جس میں یہ ششی کپور کے مقابل ہیں۔ یہ وہی پلاسٹک ایکسنٹ میں ڈائیلاگ بول رہے ہیں۔ ششی کپور وہی اپنے اصلی ایشیائی لہجے میں ڈائیلاگ بول رہا ہے۔ ششی کپور نے آگے لگایا ہوا ہے انہیں۔ بالکل دبا کے رکھا پوری فلم میں حالانکہ کردار ضیاء صاحب کا زیادہ جاندار تھا۔ کہنے کا مطلب ہے ششی کپور نے کوئی مصنوعی لب و لہجہ اختیار نہ کیا اور ضیاء صاحب کو مکمل دھو کر رکھ دیا ۔ بھئی بات یہ ہے آپ کتنے بڑے انگریزی دان ہو جائیں شیکسپیر سے بہتر انگریزی نہ لکھ پائیں گے۔ ساری عمر انگریزوں کی غلامی کر لیں ایک مکالمہ Nigel Hawthorne کے مقابلے کا نہ دے سکیں گے۔ یہ ہی وجہ تھی ضیاء صاحب ساری عمر ایک ناکام اداکار رہے۔ وجہ شہرت تو صرف اردو ادب پڑھنے سے ہوئی۔ ویسے ہمیں تو غالب کا کلام راغب اختر کی آواز میں زیادہ اچھا لگا۔ اسی طرح جب بھی ضیاء صاحب نے مشتاق یوسفی صاحب کو پڑھا کانوں کو ہرگز نہ بھایا۔ کلام یوسفی بہ زبانِ یوسفی ہی اچھا لگا۔
اردو کا تلفظ ہندوستان میں کچھ اور پاکستان میں کچھ اور ہے۔ ہمارے نانا مرحوم ہمیشہ بولتے تھے 'وے جا رہے ہیں' ۔ ہم نے پاکستان میں سنا : 'وہ جا رہے ہیں'۔ ہمارے مرحوم دوست عرفان حسین (ڈان کے کالم نگار) اپنے چھوٹے بھائی کے نام نوید کا تلفظ اس طرح کرتے تھے:
Na-vaidجسے ساری دنیا Naveedکہتی تھی۔ اور بھی ایسے بہت سارے الفاظ ہیں۔
ضیاء صاحب پنجاب سے ہیں مگر بلھے شاہ نہیں پڑھتے۔ اپنے آپ کو اوچ شریف پہ فائز کرنے کے بجائے اگر یہ پنجابی کلام پڑھیں تو قوم کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ آخری عمر میں تلفظ کی ٹھیکیداری وہ بھی بذریعہ غلط بیانی کسی کام نہ آنے کی!