اس نے اُن کے عزائم کا تعین کر دیا۔ اتنی ہی بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی ابھی تک انٹیلی جنس بیورو اور اسلام آباد پولیس کی نظروں سے خود کو چھپائے ہوئے ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ فیصلہ کن دن ہاتھ دکھانے کے لیے میدان میں اتر آئیں گے۔ دریں اثنا مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کی قیادت میں تحریک انصاف کے سابق اتحادی باضابطہ طور پر عمران خان کے خلاف صفوں میں شامل ہونے سے پہلے کچھ آخری تفصیلات طے کرنے میں مصروف ہیں۔
اس طرح آئندہ چند دنوں میں حزب اختلاف کم از کم 200 ووٹ لے کر میدان میں اترے گی۔ تحریک انصاف 140 سے آگے نہیں بڑھ پائے گی۔ اس میں کچھ ہارس ٹریڈنگ ہو سکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی پالیسیوں سے عوامی سطح پر بیزاری پیدا ہو گئی ہے۔ ان کے لیے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن جیتنا ناممکن ہے۔ لہذا وہ جیتنے والی پارٹیوں کی صفوں میں شامل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
ان حالات میں آئینی رویہ تو یہ تھا کہ عمران خان وقار کے ساتھ منصب سے الگ ہو جائیں اور اسلام آباد میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی نئی حکومت کو اقتدار سنبھالنے دیں۔ لیکن مسٹر خان کا ردعمل انتہائی منفی رہا ہے۔ وہ اپنے سابق اتحادیوں کو گالیاں دے رہے ہیں۔ نیب، ایف آئی اے اور مختلف سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے انہیں ”ٹھیک” کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تحریک انصاف کے باغیوں کو ووٹ دینے سے روکنا، اور سپیکر اسد قیصر کے دفتر کے ذریعے انہیں نااہل قرار دے کر اُن کے ووٹوں کو مسترد کرنا چاہتے ہیں۔ وہ عدم اعتماد کے عمل کو روکنے اور اپریل اور مئی تک عدالتوں میں گھسیٹنے کے لیے غیر آئینی تجاویز پر بات کر رہے ہیں، جیسا کہ سندھ میں گورنر راج، صدارتی اعلان ایمرجنسی وغیرہ ۔ اور سب سے بڑھ کر افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ ڈی چوک میں ہجوم کو جمع کرکے پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے اور ووٹنگ کے دن اراکین پارلیمنٹ کو ڈرانے دھمکانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
غیر آئینی مزاحمت کے اس آخری اقدام نے حزب اختلاف کو مشتعل کر دیا کہ وہ ان ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسی علاقے میں ایک بڑے اور اتنے ہی جارحانہ مظاہرے کا اعلان کرے۔ اس سے بات تصادم اور تشدد کی طرف چلی جائے گی۔
عمران خان نے حزب اختلاف کو ناکام کرنے کے لیے ووٹنگ کے موقع پر ایک ترپ کا پتا ظاہر کرنے کی دھمکی بھی دی ہے چونکہ اس طرح کے آخری مرحلے میں کوئی دھمکی یا بلیک میل حزب اختلاف کو روکتی یا کمزور کرتی دکھائی نہیں دیتی، اس لیے گمان ہے کہ اس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کو تقسیم کرنا اور دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ اپنی ”غیر جانبداری“ کو ترک کرکے اس کی پشت پناہی کرے۔
یہ واضح نہیں کہ عمران خان یہ سب کچھ کیسے کریں گے، نہ ہی کوئی اس بات کا یقین کر سکتا ہے کہ جب یہ کارڈ کھیلا جائے گا، تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا۔
تحریک انصاف کے دریچوں سے سرگوشیاں کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عمران جنرل قمر جاوید باجوہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اُنہیں برطرف کرکے کسی سینئر غیر متنازع جنرل کا تقرر کر سکتے ہیں جو اُنہیں مشکلات کے اس گرداب سے نکالے۔ یہ ایک بہت خطرناک تجویز ہے۔
1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے فوج اور فضائیہ کے سربراہوں کو برطرف کیا تھا۔ وہ صرف اس وجہ سے بچ نکلے کہ انہوں نے یہ خنجر پس پردہ رہتے ہوئے مارا تھا۔ نیز اس وقت دونوں فورسز بنگلا دیش کے بحران اور جنگ سے گھاؤ زدہ تھیں۔ لیکن اس نے پلٹ کر 1977 میں وار کر دیا۔
بھٹو کے اپنے منتخب آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے انہیں اقتدار سے ہٹایا اور بعد میں پھانسی دے دی۔ نواز شریف نے جنرل جہانگیر کرامت کو معمولی لغزش پر برطرف کر دیا لیکن جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں اس کا بدلہ چکا دیا اور مسٹر شریف کو ایک دہائی تک تکلیف میں مبتلا کیے رکھا۔
اس بار اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو معلوم نہیں جنرل باجوہ اور ان کے کور کمانڈرز کیا ردعمل ظاہر کریں۔ لیکن ایک بات طے ہے: آج کے کھولتے ہوئے سیاسی ماحول میں ”غیر جانبدار“ رہنا اسٹیبلشمنٹ کا بطور ادارہ فیصلہ ہے نہ کہ ذاتی۔ اس موقف کی مضبوط وجوہات ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے محسوس کیا ہے کہ”بونسائی خان“ کی قیادت میں اس کا ہائبرڈ تجربہ ناکام ثابت ہوا ہے۔ اس نے ادارے کو بہت زیادہ بدنام کیا ہے۔ اب جب عوامی جذبات کی لہر تحریک انصاف مخالف ہے، جیسا کہ رائے عامہ کے ہر سروے سے پتا چلتا ہے، وہ خان کو گلے لگانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ عمران خان کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی ضمانت، نہ کہ غیر جانبداری، کے بغیر اتنا بڑا خطرہ مول لینا بہت بڑی حماقت ہوگی۔ اور شواہد بتاتے ہیں کہ ضمانت اس وقت دستیاب نہیں۔
کچھ قیاس آرائیاں یہ بھی ہیں کہ اس کا مطلب ڈی چوک میں فیصلہ کن دن پر افراتفری اور تشدد کو ہوا دینا ہے۔ اس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو لازمی مداخلت کے لیے قدم بڑھانا پڑے گا۔ سوچ یہ ہے کہ ”اگر میں ڈوبوں گا تو اپنے ساتھ اپوزیشن کو بھی لے ڈوبوں گا۔ اگر گھر میں نہ رہ سکا تو اسے جلا کر راکھ کر دوں گا۔“
بلاشبہ حزب اختلاف اور حکومت دونوں کا نقصان ہو جائے گا۔ لیکن عمران اور تحریک انصاف کو سب بڑا گھاؤ لگے گا۔ دوسری طرف حزب اختلاف اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دے کر دوبارہ ایوان میں چلی جائے گی۔
تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی ایک قابل ذکر تعداد صرف وہی نہیں جو حزب اختلاف کی صفوں کا رخ کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری، جو کچھ برے مشوروں اور فیصلوں کے لیے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں، نے جلد بازی میں محفوظ چراگاہوں کی طرف بھاگنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ متعدد معاونین خصوصی، مشیر اور وزرا فرار ہونے کے لیے کمر باندھ رہے ہیں۔ کچھ دیگر نے اچانک ہونٹ سی لئے ہیں اور سر پر سلیمانی ٹوپی پہن لی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے ہر طرف گہری کھائیاں ہیں۔ اسلام آباد میں ان کے جو بھی غیر قانونی اور غیر آئینی تاخیری حربے ہوں، پنجاب میں پانی خطرے کے نشان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ لانے کے لیے سیاسی حریف مطلوبہ دستخطوں کے ساتھ آستینیں چڑھا چکے ہیں۔
یہ اقدام بروقت ہے کیونکہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویز الٰہی اور ان کے ساتھی پہلے ہی وفاداریاں بدل چکے ہیں۔ قومی اسمبلی میں سپیکر اسد قیصر کے برعکس چودھری پرویز الٰہی مسئلہ بننے کے بجائے مجوزہ حل کا حصہ ہیں۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حزب اختلاف جلد ہی آپس میں لڑنا شروع کر دے گی اور خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر جائے گی وہ غلطی پر ہیں۔ عمران خان سے ذاتی نفرت اور تحریک انصاف کی بحالی کا سیاسی خطرہ اس قدر حقیقی ہے کہ وہ ایک نام نہاد ”قومی حکومت” مائنس ون میں اقتدار کی شراکت کے لیے ٹھوس سمجھوتا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
درحقیقت، اسلام آباد اور چاروں صوبوں میں اس طرح کی طاقت کی تقسیم عام انتخابات تک ہونے کا امکان ہے۔ ہر گروپ تحریک انصاف کے خلاف تمام فریقوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے اپنے اپنے طریقے سے یا ایک دوسرے کے ساتھ سیٹیں ایڈجسٹ کرکے ساتھ ملاتا دکھائی دے گا۔
کچھ ووٹر سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے وعدے زیادہ کر لیے لیکن وہ اتنی کارکردگی نہ دکھا سکے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ گہری فطری خامیوں کا حامل شخص ہے۔ خدشہ ہے کہ ان کی ذاتی ناکامیاں کہیں پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کا باعث نہ بن جائیں۔