سابق سی آئی اے ایجنٹ 62 سالہ کیون میلوری پر مارچ اور اپریل 2017 میں چینی شہر شنگھائی کے دورہ کے دوران چینی خفیہ ایجنٹ کو امریکہ کی دفاعی معلومات 25 ہزار ڈالر میں فروخت کرنے کا الزام تھا۔
انہوں نے پانچ مئی 2017 کو چینی ایجنٹ کو بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا تھا، آپ کا مقصد معلومات کا خصوصی اور میرا مقصد معاوضہ حاصل کرنا ہے۔
کیون میلوری سی آئی اے میں افسر تعینات ہونے سے قبل امریکی فوج اور بعدازاں محکمہ خارجہ کی سکیورٹی سروس میں سپیشل اسسٹنٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
وہ ان امریکی حکام میں سے ایک تھے جنہیں اعلیٰ سطح کی سکیورٹی کلیئرنس حاصل تھی، وہ ناصرف پابندیوں کے بغیر کسی کو بھی گرفتار کر سکتے تھے بلکہ چینی انٹیلی جنس سے معلومات کے حصول میں بھی ان پر کوئی پابندی نہیں تھی۔
ماضی میں ایسے متعدد واقعات ہو چکے ہیں، سی آئی اے عہدیدار روبن ہانسن پر بھی چین کو اہم معلومات فروخت کرنے کے الزامات عائد ہوئے تھے جو ثابت ہو جانے پر انہیں 15 برس قید کی سزا ہوئی تھی۔
رواں برس اپریل میں ایک سابق امریکی سفارت کار کینڈیس میری کلائیبورن پر بھی ایسا ہی الزام لگا جنہوں نے امریکہ کی حساس دستاویزات چینی خفیہ ایجنٹوں کو رقم کی وصولی کے عوض فراہم کی تھیں۔
ایک اور انتہائی اہم معاملہ سابق سی آئی اے افسر جیری چن شنگ لی کا منظر عام پر آیا جن پر چین کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام ثابت ہو گیا تھا۔
یاد رہے کہ 2018 میں جیری چن شنگ لی کو گرفتار کر لیا گیا تھا جنہیں اب عمرقید کی سزا سنائے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ انہوں نے 2010 سے 2012 کے دوران چین کو وہ معلومات فراہم کیں جو اسے سی آئی اے کا معلوماتی نیٹ ورک کا معیار کم کرنے کے لیے درکار تھیں۔
امریکی سکیورٹی ماہرین کہتے ہیں، یہ معاملہ ایک خطرناک رجحان کا عکاس ہے جس میں سی آئی اے کے سابق افسروں کا اعتماد حاصل کر کے ان سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔