قریشی صاحب نے شام کو ایک ٹاک شو میں شرکت کی، گھوم پھر کر گفتگو متعلقہ کیس پر آن پہنچی۔ سوالات اچھالنے کے ماہر میزبان نے اکسایا کہ اب وہ ریمنڈ ڈیوس والا معاملہ عوام کے سامنے رکھ ہی دیں۔ جواباً شاہ جی کے منہ سے برجستہ نکل گیا کہ ’وہ جس نے کروائی، ان سے پوچھ لیں‘۔ اس کے بعد ویسے تو گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے سیاستدان نے میزبان کے مزید اگلونے کی تمام تر کوششوں کو خوبصورتی سے غچہ دیا، لیکن برسوں کی بھٹکی قوم کو اصل راہ معلوم ہونے کہ باوجود ایک غیبی بھنک مل گئی کہ راستہ کہاں جاتا ہے۔
یاد رہے کہ دو پاکستانی شہریوں کے قتل میں ملوث امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کا کیس کوئی ایسی انوکھی طوطا مینا کی کہانی نہیں تھی جس کا اختتام انہونا یا غیر متوقع ہونا تھا۔ ہر دور کی طرح اس کیس میں بھی ایک بہت بڑے طاقتور اور سونے پر سہاگہ گورے کے تحفظ کے لئے ملک کے قانون اور آئین سے بس تھوڑا بہت کھلواڑ کیا گیا۔ 49 دن حراست میں رکھنے کے بعد مقتدر حلقے نے ریمنڈ ڈیوس کو اس طرح آزاد کروایا کہ بات بات پر ایٹم بم کی شیخی بگھارنے والی قوم کو انگشت بدنداں ہونے کی زبردستی کی اداکاری کرنا پڑ گئی۔
خیر اب دیکھا جائے تو گفتگو میں نہ تو پیپلزپارٹی پر سندھ کارڈ کھیلنے کا الزام کوئی نیا ہے، نہ شاہ محمود قریشی کے پیپلز پارٹی سے راہیں جدا ہونے کی وجوہات میں کوئی کشش رہ گئی ہے، ریمنڈ ڈیوس بھی اپنے دیس میں ہنسی خوشی رہ رہا ہے، موصوف کی کتاب سے لگنے والی چنگاری بھی تھوڑی سی جل کر بھسم ہو گئی ہے۔ بیغیرتوں کو اس کیس سے کوئی سرکار نہیں ہے اور غیرت مند حالات سے سمجھوتے کی رعنائیوں کے رحم و کرم پر دن کاٹے چلے جا رہے ہیں، تو پھر بحث کیوں اور کیسی؟
میزبان کا شاہ محمود قریشی سے کیا گیا ریمنڈ ڈیوس والا سوال سنیے اور پھر جواب پر غور فرمائیں۔ کیا قریشی صاحب جانے یا انجانے میں قوم کو ریمنڈ ڈیوس کیس میں اصل سرکار سے باز پرسی پر اکسا کر سنگین جرم کے مرتکب نہیں ہوئے؟ اس سبق کو وزیر خارجہ صاحب کیوں بھول گئے، جو ہمیں ماں کے پیٹ میں ازبر کرا دیا جاتا ہے کہ ملک کے بالادست ادارے کے مفادات کو ہی قومی مفاد کہا جاتا ہے؟
ملتانی گدی نشین چاہتے ہیں کہ اتنے برسوں بعد ہم اپنے مائی باپ کی توہین، عمان میں رونما ہونے والے ان پسِ پردہ سرگرمیوں کی بابت پوچھ گچھ کریں، جس میں جنرل کیانی اور ایڈمرل مائیک ملن کے درمیان گفتگو کا موضوع ایک غیرملکی شہری کو اس کے جرم کی سزا سے بچانا تھا؟ سائیں چاہ رہے ہیں کہ ہم عدالتی فیصلے سے قبل جنرل پاشا صاحب سے ان کی سی آئی اے کے سربراہ اور امریکی سفیر کو کرائی گئی یقین دہانیوں کے محرکات پوچھیں۔ نہ پیر جی، نن۔ ہم تو قصہ پارینہ بن جانے والی عدالتی کارروائی کے دوران عزت مآب جںرل پاشا صاحب کی کیمرون منٹر کے درمیان لمحہ بہ لمحہ کی جانے والی میسجنگ کا مدعا جاننے کے بھی خواہ نہیں، اور نہ ہی ان کی مدتِ ملازمت میں کی گئی توسیع کی بابت معلوم کرنا چاہتے ہیں۔
اور تو اور ہم تو سخت گیر وکیلِ استغاثہ اسد منظور بٹ کو مقدمے سے علیحدہ کرائے جانے کی تفصیل میں بھی دلسچپی نہیں رکھتے۔ اس کے ساتھ ہمیں بیتے دنوں کے اس کیس میں دیت کے معاملے میں آئی گئی اڑچن کو فوری رفع دفع کرنے کا ٹوٹکہ بھی معلوم نہں کرنا اور نہ ہی دیت لینے سے انکاریوں کو اقراری میں تبدیل کرنے کی غرض سے صرف کی گئی توانائیوں کے اغراض و مقاصد جاننا ہیں۔ ہمیں تو اس ادارے کی شناخت کی بھی قطعی ضرورت نہیں، جس کی گاڑی میں ریمنڈ ڈیوس کو جان کیری، حسین حقانی اور امریکی سفیر منٹر کے ہمراہ بٹھا کر چھو منتر کیا گیا۔ عدالتی کارروائی وقت سے پہلے کیوں شروع ہوئی، مقدمے کے دوران عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا گیا اور جج صاحب فیصلہ سناتے ہی چھٹیوں پر کیوں چلے گئے، یہ سارے سوالات تو ہم اپنے کند ذہنوں سے پہلے ہی کھرچ چکے ہیں۔ جو نقش باقی رہ گیا ہے اس میں امریکی سفیر کمیرون منٹر، کارمیلا کونرائے، صدر زرداری، جان کیری، ہلیری کلنٹن، رحمان ملک، رانا ثنا اللہ، شہباز شریف اور نواز شریف کے کالے کرتوت نظر آتے ہیں۔
مانا کہ گدی نشین شاہ محمود قریشی صاحب کے حکم کا انکاری ہونا شاید آخرت کے لئے صحیح نہیں، لیکن کیا کریں اس کیس کے ’بڑے پیر‘ گستاخی پرتو دنیا میں ہی یقینی عبرت ہے۔