جسٹس فاروق حیدر نے مجرم سادات امین کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی جس کی وفاقی حکومت اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے مخالفت کی گئی۔
سماعت کے دوران عدالت میں مجرم کی طرف سے رانا ندیم احمد ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ درخواست گزار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ نارویجن پولیس لائزن آفیسر رائے لینڈوت کی درخواست پر مجرم کو مقدمہ میں بے بنیاد ملوث کیا گیا۔ مجرم پر کمسن بچوں کی قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز نارویجن شہری کو بھجوانے کا الزام بے بنیاد ہے۔
رانا محمد ندیم ایڈووکیٹ نے عدالت میں کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ناکافی شواہد کے باوجود درخواست گزار کو 7 برس قید کی سزا سنائی۔ مجرم 2017 سے جیل میں قید ہے، مجرم اپنی 7 سال میں سے 4 برس قید اپیل کے حتمی فیصلے سے پہلے ہی کاٹ چکا ہے۔ ٹرائل کورٹ نے مجرم کو حقائق کے برعکس سزا سنائی، پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کا اطلاق مجرم پر نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجرم نے کسی بھی بچے کی فحش ویڈیو نہیں بنائی ساتھ ہی استدعا کی کہ مجرم کو سنائی گئی قید کی سزا غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کی جائے۔
وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ مجرم کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مجرم ایک بین الاقوامی چائلڈ پورنو گرافی گینگ کا حصہ ہے، ٹرائل کورٹ نے حقائق کے عین مطابق اور ثبوتوں کی روشنی میں سزا سنائی۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے استدعا کی کہ مجرم سادات کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کی جائے۔
دوسری جانب ایف آئی اے کے وکیل منعم بشیر چوہدری نے بھی مجرم کی اپیل کی مخالفت کی، عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر مجرم کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے اپیل مسترد کردی گئی۔
خیال رہے کہ 26 اپریل 2018 کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے سرگودھا سے تعلق رکھنے والے سعادت امین کو برقی جرائم کی روک تھام کے قانون (پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ) 2016 کی دفعہ 22 کے تحت 7 سال کی سزا سنائی تھی اور 12 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ تاہم 14 مئی کو اس سزا کے خلاف اپیل پر لاہور ہائی کورٹ نے چائلڈ پورنوگرافی کے بین الاقوامی گٹھ جوڑ کا حصے ہونے پر سزا پانے والے شخص کی سزا کو معطل کرتے ہوئے اسے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم سنایا تھا۔