گھر میں جس بچے سے سب سے زیادہ امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور جب وہ بچہ شام کو خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہے تو گھر کے مکینوں کا دکھ اور تکلیف اس کی طرف زیادہ ہوتا ہے بنسبت اس دوسرے بچے کے جو نکھٹو، بیکار اور آوارہ ہو۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم جب دکھ اور غصے کی ملی جلی کیفیات سے گزرتے ہیں تو بے جا تنقید کا طوفان جائز تنقید پر غالب آ جاتا ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت پر تنقید کرنا ہم بالکل جائز نہیں سمجھتے کیونکہ تنقید سے قبل امیدیں اور توقعات وابستہ کرنا ضروری ہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے امیدیں وابستہ کرنا خلاف عقل ودانش ہے۔ جس طرح گھر کے مکین بھری تجوری کی کنجیاں ایک ثابت شدہ بدعنوان فرد کے حوالے کرکے پھر یہ خلاف عقل امید رکھیں کہ کوئی ہیرا پھیری نہیں ہوگی۔
اگر ہمارا یہ استدلال غلط ہے تو پھر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈران کو چاہیے کہ عمران خان کا مقابلہ کریں اور کارکردگی کے میدان میں بے شک نہ کریں۔ عمران خان کا مقابلہ جلسوں کے میدان میں ہی کرکے دکھا دیں اور جلسوں میں بھی تعداد کو نظر انداز کرکے بیانیے کے میدان میں مقابلہ کریں۔
عمران خان اپنی تمام کمزوریوں، نادانیوں، نااہلیوں اور بدانتظامیوں کے باوجود کئی باتیں اصولی طور بالکل درست کہتا ہے جیسے کسی ایسی سیاسی پارٹی کو کبھی ووٹ نہ دیں جن کے لیڈران کا پیسہ اور پراپرٹیاں ملک سے باہر ہوں۔
اب ان دنوں پارٹیوں کے لیڈران جلسے میں اپنے متوالوں کو یہ مشورہ دے سکتے ہیں؟ پردیس میں نیلگوں آسمان کے نیچے سر اٹھائے عالی شان محلات اور بینکوں میں محفوظ بے پناہ سرمایہ کبھی بھی نواز شریف اور زرداری کو یہ طاقت اور اخلاقی جرات نہیں دے گا کہ وہ بھرے جلسے میں عمران خان کی اس بات کو دہرا سکیں۔
آپ اس ناممکن بات کا تصور تو باندھیں کہ نواز شریف بھرے جلسے میں عوام سے یہ دردمندانہ اپیل کر رہا ہے کہ کبھی ایسی سیاسی جماعت کو ووٹ مت دو جس جماعت کے لیڈر کی دولت اور جائیدادیں بیرون ملک ہیں۔
شریف برادران اور زرداری جلسوں میں کبھی دکھ بھرے انداز میں اس حقیقت کا بھی اعتراف نہیں کرسکیں گے کہ یہ نظام بڑے ڈاکوئوں، چوروں کو تو چھوڑ دیتا ہے مگر معمولی نوعیت کے چوروں سے جیلوں کو بھر دیتا ہے۔
اس کڑوے سچ کو خان کے حریف جلسوں میں بیان نہیں کرسکتے کیونکہ وہ خود اس گلے سڑے، بوسیدہ نظام کے ذریعے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ اب آپ پھر اس ناممکن بات کا تصور کریں کہ مریم نواز بڑے زور وشور سے جلسے میں فرما رہی ہیں کہ پاکستان کے تمام بڑے بڑے لیٹروں کو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے۔ ناانصافی پر کھڑا جو نظام عمران خان کے حریفوں کو یہ سہولت فراہم کرتا ہے کہ وہ کچھ دنوں کی آرام دہ جیل کاٹ کر باہر آ جائیں اور پھر ملک سے ہی باہر چلے جائیں، کچھ عرصہ دنیا گھومیں، مزے کریں اور پھر نئے نکورے ہو کر اقتدار کے کھیل میں واپس آ جائیں۔ بھلا احتساب کے ایسے نظام کی مخالفت شریف برادران اور زرداری اینڈ کمپنی اپنے جلسوں میں کھڑے ہو کر کر سکتے ہیں؟
دو خاندانوں کی وراثتی ونسلی سیاست و اقتدار کی منتقلی کے خلاف موقف اپنانا بھی عمران خان کے بیانیے کو مضبوط کرتا ہے۔ اب آپ دوبارہ تخیل کی دنیا کو آن کر کے یہ ناممکن منظر دیکھیں کہ آصف علی زرداری جلسے میں کھڑا یہ اعلان کر رہا ہے کہ اب میرے خاندان کا کوئی بندہ (یا بندی) وزیراعظم پاکستان کے منصب کے لیے کھڑا نہیں ہوگا۔ میں وراثتی سیاست کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے پارٹی کے ہونہار ورکروں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے نام وزیراعظم اور صدر کے عہدے کے لیے پیش کریں۔
عمران خان کے بیانیے میں اصولی طور پر سچے نکات کا مقابلہ کرنا شریفوں اور زرداریوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔ خان کے جلسوں کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ وہ شریفوں اور زرداریوں کے بارے میں جو کہتا ہے وہ سچ ہے۔ وہ گلے سڑے نظام کے بارے میں جو کہتا ہے وہ بھی سچ ہے۔ ٹاپ لیول پر برپا ہونے والی کرپشن کے حوالے سے جو طاقتور اداروں میں بے حسی پائی جاتی ہے وہ بھی سچ ہے۔ تیس چالیس سالوں سے ملک کو بے دردی سے نوچا گیا۔ یہ بھی سچ ہے۔ ان سچائیوں کا توڑ خان کے حریفوں کے پاس نہیں ہے۔
اگر شریف اور زرداری ٹولے نے عمران خان کا مقابلہ کرنا ہے تو انہیں روایتی سیاست کو خیرباد کہنا پڑے گا، انہیں ایسی سیاست کو دفن کرنا پڑے گا۔ انہیں لوٹا ہوا پیسہ واپس کرنا پڑے گا لیکن یہ سب دیوانے کا خواب ہے۔ یہ دونوں خاندان پاکستان میں حکمرانی کرنے آتے ہیں۔ قربانیاں دینا تو عوام کا کام ہے۔ بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ عمران خان ان دونوں جماعتوں کے بحری جہازوں میں شگاف ڈال چکا ہے۔