پیپلز کمیشن برائے حقوقِ اقلیت کے سرپرست اعلیٰ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال اورادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے وفاقی وزارتِ انسانی حقوق، سینٹ اور قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹیوں ، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے قائم کردہ یک رکنی کمیشن کو مشترکہ خطوط لکھے اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس صورتحال پر توجہ اور فوری جامع اقدامات اُٹھانے جائیں۔
انسانی حقوق کے حکومتی اداروں کو ارسال کئے گئے خطوط میں جنوری 2023 سے 10 مئی 2023 کے درمیان جبری تبدیلی کے بڑھتے ہوئے واقعات شامل ہیں۔ اس دوران مجموعی طور 39 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں جبری تبدیلی مذہب کی شکار متاثرہ لڑکیوں میں سے18 لڑکیوں کی عمریں 18 سال سے کم، 8 کی 14 سال سے بھی کم، 2 کی 18 سال سے زائد جبکہ 11 لڑکیوں کی عمریں ظاہر نہیں کی گئیں جس سے لگتا ہے کہ یہ 11 لڑکیاں بھی نابالغ ہی ہیں۔
اغوا کردہ 39 لڑکیوں میں سے دو لڑکیاں اغوا کاروں کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں جبکہ تین کو پولیس نے بازیاب کروا کے اُن کے خاندانوں سے ملایا۔ 37 لڑکیاں اغوا، جبری شادیوں کی اذیت سہنے، مذہبی آزادی کے حق سے محروم رہنے جیسی متعدد ناانصافیوں کا شکار بنیں۔ ایک مغوی لالی کچھی کے بھائی لالو کچھی کو اغوا کاروں نے قتل کر دیا تھا۔
مذکورہ خطوط میں بتایا گیا کہ 2022 کے دوران 124 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 81 ہندو، 42 مسیحی اور ایک سکھ لڑکی شامل تھی۔ سال 2022 میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد میں سال 2021 کی شرح میں 59 فیصد اضافہ ہوا ۔ 2021 میں 78 لڑکیوں میں سے 76 فیصد لڑکیوں کی عمر 18 سال سے کم تھیں اور 18 فیصد کی عمروں کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
2019 میں حکومت نے اقلیتوں کو جبری تبدیلی مذہب سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی تھی جو اکتوبر 2021 میں "جبری تبدیلی مذہب کی ممانعت بل 2021 پر غور کرنے میں ناکام رہی اور تب سے یہ کمیٹی غیر فعال ہے۔
ادارہ برائے سماجی انصاف اور پیپلز کمیشن برائے حقوقِ اقلیت نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بچیوں کے اغوا اور تبدیلی مذہب کے واقعات کی انفرادی سطح پر تحقیقات کرے اور ملوث افراد کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں نیز ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے مناسب قانون سازی اور متاثرین کی بحالی کا انتظام بھی کیا جائے۔