ہم دربوکے کی تھاپ پر نعرے کیوں لگاتے ہیں؟

11:31 AM, 19 Nov, 2019

حسنین جمیل فریدی
گذشتہ دنوں ہونے والے فیض فیسٹیول پر میں اپنے پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو کے کامریڈز کے ہمراہ طلبہ یکجہتی مارچ کی موبلائزیشن کیلئے الحمرا آرٹ کونسل لاہور پہنچا۔ اس دو روزہ میلے میں ہم نے لوگوں کو جمع کرنے کیلئے نعرے لگائے، ان پُرجوش نعروں اور دربووکے کی دھن سن کر وہاں پر موجود لوگ رہ نہ پائے اور دیکھنے چلے آئے کہ آخر یہ نعرے لگانے والے کون ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے؟

ان نعروں کے بعد ہم نے الحمرا کے گراؤنڈ میں ایک طلبہ بیٹھک شروع کی جس میں مختلف اداروں کے طلبا نے اپنے مسائل بیان کئے اور ہم نے انہیں اپنے مسائل کے حل کیلئے آواز بلند کرنے کو کہا اور 29 نومبر کو لاہور سمیت پورے پاکستان میں ہونے والے طلبا یکجہتی مارچ میں شرکت کی دعوت دی۔



ہمارے کامریڈز کے بلندوبالا اور پُرجوش نعروں کو وہاں پر موجود لوگوں اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر سراہا گیا۔ کامریڈ عروج کے نعروں نے ثابت کیا کہ ہمارے سماج کی عورت اس استحصالی نظام کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہے۔ کامریڈ زاہد، کامریڈ حیدر کلیم، کامریڈ حیدر بٹ، کامریڈ محبہ اور کامریڈ رضا کے نعروں نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا۔ ان نعروں نے  پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کو نیا جنم دیا جنہیں ترقی پسندحلقوں میں سراہا گیا جبکہ خاموشی سے ظلم سہہ کر چپ کر جانے  والے اور سرمایہ دارانہ استبداد کی چکی کو اپنی حقیقی آماجگاہ سمجھنے والوں نے بےجا تنقید کی۔

ہمیں برگر اور لبرل کلاس ہونے کے طعنے دیے گئے، خاص کر میرے دربوکہ بجانے کو بھی حرف تنقید بنایا گیا۔ جیسے میں نے دربوکہ نہیں بلکہ کلاشنکوف پکڑ رکھی ہو۔ 14 اگست کو ہارن اور باجے بجانے والی نسل نعروں کی اس دھن پر رنجیدہ دکھائی دی۔ طرح طرح کے نامناسب الفاظ سے نوازا گیا۔

ان آرا پر اِن حضرات کی خدمت میں گزارش ہے کہ اول تو میرے سمیت کسی بھی کامریڈ کا تعلق ایسی اشرافیہ سے نہیں اور نہ ہی ہم لمز یا ایل ایس سی کے طلبہ ہیں۔ میرا اور عروج اورنگزیب کا تعلق پنجاب یونیورسٹی سے ہے۔ حیدرگورنمٹ کالج کا طالب علم ہے جس نے پندرہ ہزار نوکری کے عوض اپنی تعلیم مکمل کی، ان کے والد ایک کسان ہیں، رضا اور محبہ گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم ہیں جو اپنے تعلیمی اخراجات خود پورے کرنے کیلئے نوکری بھی کرتے ہیں۔ زاہد کا تعلق ساہیوال کے چھوٹے سے گاؤں سے ہے جن کے والد وہاں کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم پر اے سی والی گاڑیوں کا الزام لگایا گیا جبکہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کے پاس گاڑی ہو، بلکہ موٹر سائیکل بھی صرف میرے پاس ہے جس کی حالت زار 1990 کے ماڈل سے بھی بدتر ہے۔



خیر، وہ حضرات جو سارا دن فون، لیپ ٹاپ اور گاڑیوں میں گانے سنتے ہیں۔ شادی بیاہ اور میلوں پر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہیں، میرے دربوکہ بجانے پر ناراض ہیں اور معاشرے کے لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کے اس نئے طریقہ پر بھی فتوی سازی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ طریقہ بطور احتجاج پاکستان سے قبل بہت سے ممالک میں اپنایا جاچکا ہے۔ یقینًا میرا دربوکہ ان نعروں میں جان ڈالتا ہے، جن میں ناصرف سُر، ساز بلکہ ایک جذبہ، احساس اور انقلابی سوچ شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان ساتھیوں کے نعروں کی گونج میرے اندر ایک ردھم، ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کرتی ہے اور سائنٹیفک روح سے ایک انقلابی احساس جگاتی ہے جس کا کوئی متبادل نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز سُر اور لے میں ہے تو سیاست اور سیاسی نعرے اس سے مب٘را نہیں، بلکہ ان نعروں کی ردھم میں ایک ایسی کشش ہے جو لوگوں کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے جو اس ردھم کو سنتے دوڑے چلے آتے ہیں اسی طرح بہت سے انقلابی گانے اور فلمیں نئی سیاسی سوچ کے ذریعے جمود زدہ معاشرے میں جدلیات پیدا کرتے ہیں۔ آرٹ اور سیاست کا گہرا تعلق ہے، بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔

میرا یہ دربوکہ طلبہ حقوق کی آواز اٹھانے والے شہید مشال خان کی صورت ظالموں کیلئے للکار ہے، یہ دربوکہ شہید ارمان لونی کے چھوٹے بچوں کی آواز ہے، یہ دربوکہ ساہیوال میں بے گناہ قتل کیے گئے والدین کے بچوں کی آہ و پکار ہے، یہ دربوکہ پولیس حراست میں مارے گئے صلاح الدین کا وہ سوال ہے جس کی پاداش میں ہزاروں بے گناہ مارے گئے۔ میرا یہ دربوکہ ریاستی جبر سے لاپتہ بلوچ، پشتون اور سندھی ماؤں کی وہ سسکی ہے جو ہر وقت اپنے گمشدہ بچوں کی واپسی کی راہ تکتی ہے۔



 میرا دربوکہ ہر اس ظالم کے خلاف بجتا ہے جو صدیوں سے طبقاتی نظام کی صورت ہمارے طبقہ پر کیا گیا۔ یہ دربوکہ ہر اس جابر حکمران کے خلاف علم بغاوت ہے جو عمرانی معاہدے کے تحت بنائے گئے آزاد معاشرے کو  ریاستی جبر سے گھٹن زدہ معاشرہ بناتا ہے۔ یہ دربوکہ ہر اس غریب کسان کی آواز ہے جو فصلیں اگاتا ہے مگر اس کی ساری کمائی ایک جاگیردار لے جاتا ہے، یہ دربوکہ ہر اس محنت کش کی آواز ہے جسے صبح سے شام تک کام کرنے پر حکومت کی مقرر کردا بنیادی تنخواہ نہیں ملتی۔ یہ دربوکہ ہر اس عورت کی بغاوت ہے جسے صدیوں سے پدر شاہی کی زنجیروں میں جکڑے رکھا۔ یہ دربوکہ ہر اس نوجوان کی پرجوش للکار ہے جسے اس ملک کا 64 فیصد ہونے پر بھی اپنا حق مانگنے کی آزادی نہیں۔

اس دربوکے کی دھن وہ تمام سوالات اٹھاتی ہے جن کے اٹھانے پر سرکار کے ایوانوں میں کپکپی تاری ہوجاتی ہے۔  میرا دربوکہ انتہاپسندی کے خلاف وہ ہتھیار ہے جو لوگوں کو قتل کرنے اور مارنے کی بجائے زندہ رہ کر لڑنا سکھاتا ہے۔

اپنے نفس کی خوشنودی کیلئے دھنیں اور ڈھول سننے والے اور اس پر رقص کرنے والے اس ظالم نظام کے خلاف بجنے والے ڈھول کا مذاق کیوں اڑاتے ہیں؟ یہ ڈھول بجے گا تب تک جب تک طلبا کو ان کے حقوق نہیں ملتے، کسان کو اس کی محنت کا درست معاوضہ نہیں ملتا، مزدور کو اتنی اجرت نہیں ملتی کہ وہ اپنی ضروریات پوری کر سکے۔ عورت پدر شاہی کے غلامی سے آزاد نہیں ہو جاتی، فوج اپنے بیرکوں  میں واپس نہیں جاتی، مظلوم کو انصاف نہیں ملتا اور اس  سماج کی طبقاتی تفریق ختم نہیں ہوتی۔

اس دربوکے کی دھن ظلم سہہ کر ماتم کرنے کی دھن سے کہیں بہتر ہے، یہ دربوکہ حق کی آواز ہے، آؤ اس دربوکے کی دھن پر اس طبقاتی نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان کریں اور ایک ایسا سماج بنائیں جہاں ہر کسی کو اس کا حق مل سکے۔ جہاں ظلم و استحصال باقی نہ رہے۔ جہاں ہر طالب علم سوچ سکے، سوال کر سکے، باعزت روزگار حاصل کر سکے، جہاں غریب ہاری کی بیٹی آسانی سے بیاہی جائے۔ جہاں مزدور کسان اپنی پیداوار کی حقیقی اجرت لے سکیں، جہاں اقلیتیں آزادانہ اپنی عبادت گاہوں میں جا سکیں۔

جہاں حیوانیت کی بجائے انسانیت پروان چڑھے کیونکہ یہ دربوکہ دہشتگرد کی بندوق اور بم کے بجائے امن، سنگیت اور پرجوش نعروں سے اپنے نظریات کا پرچار کرتا ہے۔
مزیدخبریں