دستاویزات کے مطابق کمیشن قائم ہونے کے بعد پورے پاکستان سے جبری گمشدگیوں اور مسنگ پرسنز کے چھ ہزار چار سو اکتیس کیسز رجسٹرڈ ہوئے جن میں چار ہزار ایک سو چالیس کیسز پر کاروائیاں کی گئی ہیں جبکہ دو ہزار دو سو اٹھائیس کیسز پر عملدرآمد جاری ہے جن کو جلد حل کیا جائے گا۔
موجودہ دستاویزات کے مطابق سال دو ہزار پندرہ میں چھ سو انچاس کیسز رپورٹ ہوئے، 2016 میں سات سو اٹھائیس، 2017 میں 868، 2018 میں ایک ہزار اٹھانویں اور2019 میں 725 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔
دستاویزات کے مطابق پنجاب سے 1343 کیسز کا اندراج ہوا، جن میں 78 لوگ مختلف انٹرنمنٹ سینٹرز میں ہیں جبکہ 126 افراد جیلوں میں ہیں اور جبکہ 59 لوگوں کی لاشیں ملی ہیں۔
صوبہ سندھ سے 1580 لوگوں کی گمشدگیوں کی رپورٹس کمیشن کو موصول ہوئی ہیں جن میں 30 افراد مختلف انٹرنمنٹ سینٹرز اور 234 جیلوں میں قید ہے جبکہ 51 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔
خیبر پختون خوا سے کمیشن کو دو ہزار چار سو چونتیس کیسز کی رپورٹ آئی ہے، جن میں چھ سو چار افراد مختلف انٹرنمنٹ سینٹرز جبکہ تیراسٹھ افراد مختلف جیلوں میں قید ہیں جبکہ 46 لوگوں کی لاشیں ملی ہیں۔
صوبہ بلوچستان سے کمیشن کو 466 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں چھ افراد مختلف جیلوں میں قید ہے جبکہ اٹھائیس لوگوں کی لاشیں ملی ہیں۔
سابقہ فاٹا جو اب صوبے کا حصہ ہے کے اعداد و شمار کا ذکر کرتے ہوئے کمیشن نے کہا ہے کہ جنگ زدہ فاٹا سے 273 کیسس رپورٹ ہوئے جن میں چونسٹھ افراد انٹرنمنٹ سنٹرز جبکہ تے ایس افراد مختلف جیلوں میں قید ہیں جبکہ نو افراد کی لاشیں ملی ہے۔
وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کمیشن نے کہا ہے کہ وفاق سے 272 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سترہ افراد انٹرنمنٹ سینٹرز جبکہ چھبیس افراد مختلف جیلوں میں قید ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ چھ لوگوں کی لاشیں ملی ہے۔
گلگت بلتستان کے اعداد و شمار کے مطابق کمیشن کو آٹھ کیسز موصول ہوئے جن میں ایک شخص انٹرنمنٹ سینٹر میں قید ہے جبکہ باقی دو کیسز پر کام جاری ہے اور پانچ کیسز کو مختلف نوعیت پر خارج کیا گیا۔
آزاد جموں اینڈ کشمیر کے اعداد و شمار کے مطابق پچپن کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں گیارہ لوگ مختلف جیلوں میں قید ہیں اور ایک شخص کی لاش ملی ہے جبکہ باقی کیسز پر کام جاری ہے۔
اکتوبر کے مہینے میں مختلف کیسز پر جواب دیتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں نے کہا ہے باجوڑ سے تعلق رکھنے والے خلیل الرحمان اس وقت لکی مروت انٹرنمنٹ سینٹر، ڈی آئی خان سے تعلق رکھنے والے نعیم اللہ لکی مروت انٹرنمنٹ سنٹر میں، سوات سے تعلق رکھنے والے محمد حسین ملاکنڈ انٹرنمنٹ سینٹر میں، خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے نورزادہ لکی مروت انٹرنمنٹ سینٹر، سوات سے تعلق رکھنے والے محمد رحیم پیتوم انٹرنمنٹ سینٹر میں، کراچی سے تعلق رکھنے والے رمضان لکی مروت انٹرنمٹ سینٹر میں جبکہ لاہور سے تعلق رکھنے والے محمد شکیل محکمہ انسداد دہشتگردی میں قید ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ آف پاکستان نے صوبہ خیبر پختونخوا میں انٹرنمٹ سینٹرز میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے کچھ دن پہلے انٹرنمنٹ سینٹرز کو آئین کے خلاف قرار دیدیا تھا اور پولیس کو یہ احکامات جاری کیے تھے کہ تمام انٹرنمنٹ سینٹرز کو اپنی تحویل میں لے لے۔ جبکہ صوبائی حکومت کو احکامات جاری کیے گئے تھے کہ انٹرنمنٹ سینٹرز میں قید تمام قیدیوں کی معلومات پولیس کو فراہم کی جائیں۔