تفصیلات کے مطابق 20 مارچ 2018 کو ٹرائل کورٹ نے جیو ٹی وی کے مالک اور انڈیپینڈنٹ میڈیا کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو میر شکیل الرحمٰن کی جانب سے اے آر وائے کے سلمان اقبال کے خلاف ایک نجی شکایت مسترد کردی تھی۔
میر شکیل الرحمٰن نے پروگرام ’کھرا سچ‘ کے ذریعے اپنے خلاف بدنام کرنے کی مہم چلانے پر اے آر وائے کے ڈیجیٹل نیٹ ورک کے خلاف 19 فروری 2014 کو درخواست دائر کی تھی اور مناسب کارروائی کی استدعا کی تھی۔
سرسری شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج، اسلام آباد (9) کی عدالت نے درخواست میں نامزد دیگر افراد سمیت اے آر وائی کے سی ای او کو طلب کیا تھا۔
اس پر اے آر وائے کے سلمان اقبال نے اس شکایت کو مسترد کرنے کی درخواست دائر کی تھی جسے 11 جنوری 2016 کو جج نے منظور کرلیا تھا۔
بعد ازاں ٹرائل کورٹ نے ایک اور درخواست موصول ہونے پر 20 مارچ 2018 کو ایک حکم نامے کے ذریعے اس شکایت کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو بھجوا دیا تھا اور کہا تھا کہ نجی طور پر درج کرائی گئی شکایت میں لگایا گیا الزام تعزیرات پاکستان میں ہتک عزت سے متعلق دفعہ نہیں بلکہ پیمرا آرڈیننس 2002 کے زمرے میں آتا ہے۔
تاہم میر شکیل الرحمٰن کی سربراہی میں انڈیپینڈنٹ میڈیا کارپوریشن (آئی ایم سی) نے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
جس پر ہائی کورٹ نے کیس کو واپس ٹرائل کورٹ بھجواتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ اس قانونی سوال کے شواہد ریکارڈ کیے جائیں کہ اس کیس پر تعزیرات پاکستان کا اطلاق ہوتا ہے یا پیمرا آرڈیننس کا۔
چنانچہ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 2 رکنی بینچ نے اے آر وائے کے سلمان اقبال اور دیگر کو اپیل کا حق دیتے ہوئے آئی ایم سی اور انڈیپینڈنٹ میڈیا کارپوریشن، جنگ گروپ کے مالک کو نوٹسز جاری کیے۔
سلمان اقبال نے اپنے وکیل چوہدری فیصل حسین کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کیس کو واپس ٹرائل کورٹ بھجوانے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور 20 مارچ 2018 کا حکم بحال کیا جائے جس میں عدالت نے میر شکیل الرحمٰن کا دائر کردہ کیس مسترد کردیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس حقیقت کو مدِ نظر نہیں رکھا کہ ٹرائل کورٹ نے نجی شکایت گزار کو پیمرا کے سامنے پیش ہونے کے لیے بھیج دیا تھا۔
پٹیشن میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے اپنے حکم نامے میں واضح طور پر کہا تھا کہ شکایت کو واپس پیمرا کو بھیجا جارہا ہے اور دفعہ 201 اور 265-کے ظاہر کرتا ہے کہ عدالتی حکم اس معاملے پر لاگو ہونے والے قانون کے مطابق تھا۔
پٹیشن میں سال 2017 کے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ بینکنگ عدالتوں کے خصوصی آرڈیننس کا اثر بہت زیادہ ہے اور جب بھی آرڈیننس کے تحت کوئی مالی جرم ہوگا تو اسے صرف بینکنگ عدالتیں ہی سن سکتی ہیں کوئی اور فورم نہیں۔