"انگلش کرکٹ میں ایشیائی اور سیاہ فام کھلاڑیوں کو مواقع نہ ملنے کی وجہ ’شراب نوشی کا کلچر‘ ہے"

ویسٹ انڈیز کے سابق کھلاڑی ٹینو بیسٹ کا کہنا ہے کہ انگلش کرکٹ میں ایشیائی اور سیاہ فام کھلاڑیوں کو مواقع نہ ملنے کی وجہ کسی حد تک کاؤنٹی ٹیموں میں موجود ’شراب نوشی کا کلچر‘ ہے۔

بین الاقوامی جریدے کی رپورٹ کے مطابق منگل کو سابق کرکٹر عظیم رفیق کی برطانوی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے گواہی نے انگلینڈ کرکٹ میں موجود نسل پرستی کے ساتھ ساتھ شراب نوشی کے کلچر کو بھی نمایاں کردیا ہے۔

مسلمان کھلاڑی عظیم رفیق نے بتایا کہ جب وہ 15 سال کے تھے تو مقامی کرکٹ کلب میں ان پر دباؤ رکھا گیا تھا اور یارکشائر اور ہیمپشائر کے لیے کھیلنے والے ایک نامعلوم کھلاڑی نے انہیں زبردستی ریڈ وائن بھی پلادی تھی۔

اس نئے اسکینڈل نے انگلینڈ میں کھیل کے شعبے کو دہلا کر رکھ دیا، اس سے یارکشائر کے اسپانسرز اور انگلینڈ کے بین الاقوامی مقابلوں کی میزبانی کے حق کو بڑا نقصان پہنچا ہے، کلب کے اعلیٰ افسران بھی عہدے چھوڑ کرجاچکے ہیں اور انگلش کرکٹ کے کچھ بڑے ناموں کو بھی اس اسکینڈل نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

یارکشائر میں رفیق کے ساتھ کھیلنے والے ٹینو بیسٹ نے بی بی سی اسپورٹس کو بتایا کہ ’شراب کلچر کرکٹ کا حصہ ہے جو ایک بڑا مسئلہ ہے، لوگوں پر کلب ہاؤس میں جانے اور ٹیم کا حصہ بننے کے لیے 8، 9 گلاس شراب پینے کے لیے دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔’

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اگر آپ شراب نوشی کے کلچر اور بوائز کلب کا حصہ نہیں ہیں تو آپ کو کاؤنٹی کرکٹ کے بعد مواقع نہیں ملیں گے، یہ وہ چیز ہے جو خاص رنگ اور ایشیائی نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔‘

40 سالہ کھلاڑی نے کہا کہ انہیں یاد ہے کہ 2010 میں یارکشائر میں عظیم رفیق، عادل رشید اور اجمل شہزاد جیسے ایشیائی نسل کے کھلاڑیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا اور یہ شکایات منظرعام پر لانے کے نتیجے میں انہیں انتقامی کارروائی کا بھی خوف تھا۔

انہوں نے کہا کہ مختلف رنگ کا حامل شخص ہونے کے ناطے ان کی حمایت بھی عظیم رفیق کے ساتھ ہوگی اور ان پر جو کچھ گزری اس کی شکایت وہ ہر روز کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ 2010 میں وہ لوگ کیا زبان استعمال کر رہے تھے اور اس کا سامنا کرنےوالوں کے پاس اپنا شکوہ بیان کرنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں تھا، کیونکہ کھلاڑیوں کو معاہدے کھونے کا ڈر تھا یا وہ اس بات سے خوفزہ تھے کہ شاید انہیں کلب سے باہر نکال دیا جائے گا۔‘

عظیم رفیق نے برطانوی پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ ٹیم کے سابق ساتھی گیری بیلنس 'کیون' نام کو توہین آمیز اصطلاح کے طور پر استعمال کرتے تھے کیونکہ انگلینڈ کے سابق بلے باز ایلکس ہیلز نے اپنے کتے کو یہ نام دیا تھا جس کا رنگ کالا تھا۔

عظیم رفیق کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے بدھ کو سابق بلے باز ایلکس ہیلز نے اپنے کتے کے نام میں کسی قسم کا نسلی تعصب کا مفہوم موجود ہونے کی تردید کی ہے۔

ناٹنگھم شائر کے لیے کھیلنے والے بلے باز ایلکس ہیلز نے اپنے بیان میں کہا کہ ’مجھ پر لگائے گئے الزامات کو سننے کے بعد میں واضح اور قطعی طور پر اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ میرے کتے کے نام میں کوئی نسلی تعصب کا مفہوم تھا۔‘

سابق بلے باز نے مزید کہا کہ ’ عظیم رفیق کا یہ مؤقف اور جو کچھ انہیں برداشت کرنا پڑا ان دونوں کا میں پوری طرح سے احترام کرتا ہوں اور مجھے بہت زیادہ ہمدردی ہے، ان کی یہ گواہی دلخراش تھی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ کرکٹ میں نسل پرستی یا کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اس حوالے سے میں کھیل کے حکام کی جانب سے ہونے والی کسی بھی تحقیقات میں خوشی سے تعاون کروں گا۔‘

ناٹنگھم شائر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مقررہ کمیٹی کے سامنے گواہی کے بعد اندرونی سطح پر مناسب کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اس کے مطابق ایلکس ہیلز اور ان کے مشیروں کے ساتھ رابطہ جاری رکھیں گے۔

اس کے علاوہ برطانوی نشریاتی ادارے کے سپورٹس چینل کو انٹرویو میں ویسٹ انڈیز کے سابق ٹیسٹ کرکٹر ٹینوبیسٹ کا کہنا تھا کہ ہاشم آملہ کو بار بار شراب پینے پر مجبور کیا جاتا رہا۔

ٹینوبیسٹ کے مطابق کاؤنٹی کرکٹ کی ایک تقریب میں ایک کھلاڑی باربار ہاشم آملہ کو شراب پینے پر مجبور کرتا رہا۔ ہاشم آملہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلش کرکٹر کو منع کرتے رہے۔

ٹینوبیسٹ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہاشم آملہ کو تنگ کرنے والے کرکٹرکوکہا کہ ہاشم آملہ مسلمان ہے اور مسلمان شراب نہیں پیتے تاہم وہ ہاشم آملہ کو مجبور کرتا رہا۔ ٹینوبیسٹ نے مزید کہا کہ کاؤنٹی کرکٹ میں شراب کلچرغالب ہے اور جو اس کلچرکا حصہ نہیں بنتا اس کو چانس ملنا اور آگے بڑھنا بہت مشکل ہے۔