واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کوئٹہ میں پاکستان میڈیکل کمیشن کے خلاف احتجاج کرنے والے طالب علموں کو پولیس کی جانب سے گرفتار کرکے ان پر مقدمات دائر کئے گئے تھے جس کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے اس مسئلے کا نوٹس لیا تھا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں مفاد عامہ کا نکتہ طالب علموں کی غیر قانونی گرفتاری پر پارلیمانی کمیٹی نے نوٹس لیا تھا۔
سینیٹ کی کمیٹی میں بلوچستان پولیس کے ایس پی لیگل پیش ہوئے جس پر کمیٹی ممبران نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی بلوچستان کدھر ہیں؟ جس پر بلوچستان پولیس کے نمائندے نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی بلوچستان ایک فوتگی کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکے جس پر کمیٹی ممبران نے کہا کہ اس مسئلے کو تب تک موخر کیا جائے گا جب تک بلوچستان پولیس کے اعلیٰ افسران اس کمیٹی میں پیش نہیں ہونگے۔
کمیٹی نے نوجوان طالب علموں کی گرفتاری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے اور نوجوان طالب علم جن میں طالبات بھی شامل تھیں، ان کو غیر قانونی ایف آئی آر میں گرفتار کیا گیا اور ان کو رات بھر حوالات میں رکھا گیا۔ جس پر بلوچستان پولیس کے افسر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں آن ریکارڈ کہتا ہے کہ بلوچستان میں طالب علموں کے احتجاج میں کسی بھی طالبہ کو گرفتار نہیں کیا گیا اور اس میں کوئی صداقت نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچاس سے ساٹھ طالب علموں نے کوئٹہ میں احتجاج شروع کیا اور پھر بعد میں ان کی تعداد 300کے لگ بھگ کو پہنچ گئی جس سے آمدورفت میں مسئلہ پیدا ہوا اور بعد میں طالب علموں نے ریڈ زون کی طرف پیش قدمی کی جس کے بعد ان کے خلاف ایکشن لیا گیا لیکن پولیس نے ان کے ساتھ کوئی سخت رویہ نہیں اپنایا۔ انھوں نے مزید کہا کہ جہاں پر احتجاج ہورہا تھا وہ جگہ بہت حساس ہے اور اس کی سیکیورٹی اور انتظام ایک مشکل کام ہے، اس لئے قانونی کاروائی کی گئی۔
کمیٹی نے بلوچستان پولیس کے نمائندے کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پولیس کے اعلیٰ افسران کمیٹی میں پیش ہوکر پارلیمان کو مطمئن کریں۔ انھوں نے مزید کہا کہ بلوچستان پولیس کے اعلیٰ افسران ان تین سوالات کے ساتھ کمیٹی میں پیش ہوں کہ کتنے طالب علموں کو گرفتار کیا گیا تھا؟ یہ گرفتاری کس کے حکم پر کی گئی تھی؟ کیا طالب علموں میں خواتین طلبہ بھی موجود تھیں یا نہیں؟ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں بلوچستان پولیس کے اعلیٰ افسران کو پیش ہونے کے احکامات جاری کئے۔