حکومت کی جانب سے ڈاکٹروں کو ایک مہینے کی اضافی تنخواہ سمیت تمام حفاظتی اقدامات مہیا کرنے کے اعلانات سامنے آچکے ہیں۔ وزیر صحت یاسمین راشد کہہ چکیں کہ پنجاب کے تمام ڈاکٹروں کو کورونا سے بچاؤ کے لئے سہولیات دی جاچکی ہیں۔ تو اب ڈاکٹر آخر کیا چاہتے ہیں؟ اسی سوال کا جواب لینے کے لئے نیا دور نے ڈاکٹر سلمان حسیب جو کہ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے چئیرمین اور آج کل احتجاج میں بھی شریک ہیں ان سے بات کی۔
ڈاکٹر سلمان حسیب نے کہا کہ پوری دنیا اس وقت اپنے ڈاکٹروں کو سماجی، معاشی، قانونی اور جان کی حفاظت سمیت ہر قسم کا تحفظ فراہم کر رہی ہے تاکہ وہ اس مشکل ترین گھڑی میں، ہر قسم کے خوف اور پریشانی سے آزاد ہو کر اس وبا کے خلاف مصروف جنگ ہوں۔ تاہم پنجاب حکومت الٹ چل رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے کورونا جیسے موذی ترین وائرس کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت 110 سے زائد ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس کورونا کا شکار ہو چکے ہیں۔ جبکہ سو سے زائد مشکوک کیسز کے ٹیسٹ بھجوائے جا چکے ہیں جن کے ابھی تک رزلٹ موصول نہیں ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور میں تو کیمرے کی آنکھ کا پھر کچھ ڈر ہے جیسے ہی لاہور سے نکلیں تو بد ترین انتظامات ہیں۔ نشتر ہسپتال ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کے لئے تو جہنم بن چکا ہے جہاں وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ اپنی جان بچائیں یا پھر اپنے مریضوں کی۔ گجرات میں اس وقت 20 ڈی جی خان پچیس اور ملتان میں 40 ڈاکٹروں یا پیرا میڈیکس میں کورونا کی تشخیص ہوچکی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومتی اراکین اور وزیر صحت ٹی وی پر آکر سب اچھا کی رپورٹ دے رہی ہیں۔ تاہم جب ہم انہیں صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے PPE's کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ ہمیں ملک کی غربت، قومی مجبوری اور اس طرح کے بہانے سنا کر جھوٹ بولتے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ حفاظتی سامان دستیاب نہیں ہے۔
ڈاکٹر سلمان کہتے ہیں کہ یہ معاملہ ادھر ہی نہیں رکتا۔ حکومت احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کو ٹارگٹ کر رہی ہے۔ پہلے ڈاکٹروں کو ٹرمینیٹ کیا گیا اسکے بعد جب افہام و تفہیم ہوئی اور ڈاکٹروں کو واپس نوکری پر لینے کے آرڈرز ہوئے تو تب سے انکے نام نئی بھرتیوں کی لسٹوں سے نکالے جا رہے ہیں۔ جبکہ جنرل ہسپتال اور میو میں احتجاجی ڈاکٹروں میں سے سیاسی طور پر کمیونٹی میں بااثر ڈاکٹروں کی تنخواہیں بھی روکی جا رہی ہیں.اس حوالے سے جب نیا دور نے وزیر صحت یاسمین راشد سمیت پنجاب حکومت کے ترجمان خواتین و حضرات سے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔