جہانگیر ترین اور حواریوں کا دفاع: ڈاکٹر قیصر بنگالی کے کالم کا ترجمہ

06:19 PM, 20 Apr, 2020

محمد عبدالحارث
چینی کی سبسڈی کا تنازع جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور دیگر کے ارد گرد چینی برآمد کرنے کے لئے بھاری سبسڈی لینے کے معاملے پر گھوم رہا ہے۔

ان کو شاید غلط طور پر ہدف بنایا جا رہا ہے۔ برآمد کے لئے منظوری اور اس کے لئے سبسڈی وزیر اعظم، مشیر خزانہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب تینوں کے سوا کسی اور نے نہیں دی۔ تاہم، ان کو بھی بری الذمہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ دہائیوں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے اور ان تینوں نے وہی کیا جو ان سے پہلے والے کرتے آئے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت گذشتہ سالوں میں خاص گروہوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے تشکیل دی گئی ہے۔ شوگر انڈسٹری ان میں سے ایک ہے۔ جو کاشتکار گنّے کی کاشت کرتے ہیں اُنہیں ایک اچھی قیمت کی ضمانت دی جاتی ہے۔ نتیجتاً جن زمینوں پر پہلے کپاس کاشت کی جاتی تھی وہاں بھی اب گنّے کی کاشت ہونی لگی ہے جس کی وجہ سے کپاس درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔

گنے کو ملک سے باہر نہیں لے جایا جا سکتا جس کا مطلب ہے کہ کاشتکار اسے صرف محدود علاقے میں ملوں کو فروخت کر سکتے ہیں۔ اس سے کسان مل مالکان کے ہاتھوں ایک طرح سے یرغمال بن جاتے ہیں۔ یہ مل مالکان ان سے زبردستی رعائتی قیمت پر گنّا حاصل کرتے ہیں اور رقم بھی روکے رکھتے ہیں۔ شوگر مل مالکان نے مارکیٹ پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور یہی بازار میں اس جنس کی قیمت کا تعین کرتے ہیں۔

مجموعی طور پر پاکستان میں چینی کی قیمت عالمی منڈی میں اس کی قیمت سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ شوگر کی سپورٹ پرائس کا زیادہ ہونا اور شوگر انڈسڑی کی جانب سے قیمتوں کا تعین ہے، لیکن اس سے بھی اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اگنے والے گنے میں سوکروز مواد دنیا میں سب سے کم ہے۔

گنا ساحلی علاقے کی فصل ہے، لیکن اس کی کاشت پنجاب میں بھی کی جاتی ہے۔ گنّے کی  پیداوار والے رقبے میں اضافے کے نتیجے میں اگر پیداوار میں مسلسل دو سال اضافہ ہوتا ہے تو، پچھلی فصل سے چینی کا ذخیرہ ملوں کے پاس موجود ہوتا ہے۔ اور نئی فصل سے پیدا ہونے والی چینی کو ذخیرہ کرنے کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔

اس صورتحال میں دو ہی راستے بچتے ہیں۔ یا تو مل مالکان گنے کا نیا سٹاک نہیں اٹھاتے یا پھر حکومت برآمد کردہ چینی کی قیمت اور گھریلو قیمتوں کے فرق کو پورا کرنے کے لئے ٹیکس دہندگان کی رقم میں سے شوگر کو برآمد کرنے کے لئے سبسڈی کی ادائیگی کرتی ہے۔ کسان اور مل مالکان دونوں ہی طاقتور لابیز ہیں اور حکومت دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ دونوں کی سودے بازی کی پوزیشن حکومت کے مقابلے میں مضبوط ہوتی ہے۔

دوسرا گروپ جس کے مفادات کو حکومتیں تحفظ دیتی ہیں، وہ آٹا مل مالکان کا ہے۔ فلور ملیں گندم منڈی سے بھی خریدتی ہیں اور صوبائی حکومتیں بھی انہیں رعایتی نرخوں پر گندم فراہم کرتی ہیں۔ مؤخر الذکر کی منطق یہ ہے کہ یہ ملیں عوام کو کم قیمت پر آٹا فراہم کریں گی۔



تاہم، نظام اس کے بالکل اُلٹ کام کرتا ہے۔ فلور ملز مہنگی قیمت والی گندم اور کم قیمت والی حکومت کی فراہم کردہ گندم کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتیں اور آٹے کو اوسط قیمت پر فروخت کر دیتی ہیں۔ آٹے کو اوسط قیمت پر فروخت کرنے کے نتیجے میں  اضافی منافع فلور مل مالکان کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔

ایک اور مراعات یافتہ گروپ کاغذ کے صنعت کاروں کا ہے۔ اس شعبے میں تین بڑی ملوں کا غلبہ ہے۔ تجارت اور ٹیکس لگانے کے پہلے سال کی نصابی کتابیں یہ بتاتی ہیں کہ خام مال کی درآمد پر کم شرحوں پر محصول عائد کیا جاتا ہے اور تیار شدہ مصنوعات کو درآمد پر زیادہ شرحوں پر عائد کیا جاتا ہے۔ مقصد تیار شدہ مصنوعات کی مقامی تیاری کو فروغ دینا ہے تاکہ قیمت میں اضافے سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔

پاکستان کاغذ کے معاملے میں الٹی منطق پر عمل پیرا ہے۔ گودا، جو کاغذ کی تیاری کے لئے درآمد کیا جاتا ہے، پر درآمدی ڈیوٹی کم رکھی جاتی ہے۔ تاہم، کاغذ پر ڈیوٹی، جو طباعت کے لئے خام مال ہے، حد سے زیادہ ہے، اور طباعت شدہ مواد ڈیوٹی فری ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مقامی پبلشر اب غیر ملکی پرنٹرز کے ساتھ چھپے ہوئے مواد کے آرڈر دے رہے ہیں اور چھپے ہوئے مواد کو ڈیوٹی فری درآمد کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اردو کے قاعدوں کے لئے بھی یہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید جو پہلے برآمد ہوتا تھا، اب بیرون ملک سے درآمد ہوتا ہے۔ اور ملک میں پرنٹنگ کی صنعت، جس میں کئی ہزار یونٹ شامل ہیں، ختم ہو رہی ہے جس کے ساتھ ہزاروں ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں۔

کھاد کی صنعت ایک اور مفاد پرست طبقہ ہے۔ کھاد کے لئے 90 فیصد سے زیادہ خام مال قدرتی گیس ہے، جو اسے 80 فیصد سے زیادہ سبسڈی پر فراہم کی جاتی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ زرعی اجناس کی پیداواری لاگت کو کم رکھنے کے لئے کھاد کی قیمت کم رکھنی ہوگی۔ تاہم، آٹے کی طرح اس سبسڈی کا بھی زیادہ تر حصہ اضافی منافع کے طور پر فلور مل مالکان جیب میں جاتا ہے۔

قومی معیشت کو مؤثر اور مساوی طریقے سے سنبھالنے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

چینی کی سبسڈی کا تنازع جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور دیگر کے ارد گرد چینی برآمد کرنے کے لئے بھاری سبسڈی لینے کے معاملے پر گھوم رہا ہے۔

ان کو شاید غلط طور پر ہدف بنایا جا رہا ہے۔ برآمد کے لئے منظوری اور اس کے لئے سبسڈی وزیر اعظم، مشیر خزانہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب تینوں کے سوا کسی اور نے نہیں دی۔ تاہم، ان کو بھی بری الذمہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ دہائیوں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے اور ان تینوں نے وہی کیا جو ان سے پہلے والے کرتے آئے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت گذشتہ سالوں میں خاص گروہوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے تشکیل دی گئی ہے۔ شوگر انڈسٹری ان میں سے ایک ہے۔ جو کاشتکار گنّے کی کاشت کرتے ہیں اُنہیں ایک اچھی قیمت کی ضمانت دی جاتی ہے۔ نتیجتاً جن زمینوں پر پہلے کپاس کاشت کی جاتی تھی وہاں بھی اب گنّے کی کاشت ہونی لگی ہے جس کی وجہ سے کپاس درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔

گنے کو ملک سے باہر نہیں لے جایا جا سکتا جس کا مطلب ہے کہ کاشتکار اسے صرف محدود علاقے میں ملوں کو فروخت کر سکتے ہیں۔ اس سے کسان مل مالکان کے ہاتھوں ایک طرح سے یرغمال بن جاتے ہیں۔ یہ مل مالکان ان سے زبردستی رعائتی قیمت پر گنّا حاصل کرتے ہیں اور رقم بھی روکے رکھتے ہیں۔ شوگر مل مالکان نے مارکیٹ پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور یہی بازار میں اس جنس کی قیمت کا تعین کرتے ہیں۔



مجموعی طور پر پاکستان میں چینی کی قیمت عالمی منڈی میں اس کی قیمت سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ شوگر کی سپورٹ پرائس کا زیادہ ہونا اور شوگر انڈسڑی کی جانب سے قیمتوں کا تعین ہے، لیکن اس سے بھی اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اگنے والے گنے میں سوکروز مواد دنیا میں سب سے کم ہے۔

گنا ساحلی علاقے کی فصل ہے، لیکن اس کی کاشت پنجاب میں بھی کی جاتی ہے۔ گنّے کی  پیداوار والے رقبے میں اضافے کے نتیجے میں اگر پیداوار میں مسلسل دو سال اضافہ ہوتا ہے تو، پچھلی فصل سے چینی کا ذخیرہ ملوں کے پاس موجود ہوتا ہے۔ اور نئی فصل سے پیدا ہونے والی چینی کو ذخیرہ کرنے کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔

اس صورتحال میں دو ہی راستے بچتے ہیں۔ یا تو مل مالکان گنے کا نیا سٹاک نہیں اٹھاتے یا پھر حکومت برآمد کردہ چینی کی قیمت اور گھریلو قیمتوں کے فرق کو پورا کرنے کے لئے ٹیکس دہندگان کی رقم میں سے شوگر کو برآمد کرنے کے لئے سبسڈی کی ادائیگی کرتی ہے۔ کسان اور مل مالکان دونوں ہی طاقتور لابیز ہیں اور حکومت دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ دونوں کی سودے بازی کی پوزیشن حکومت کے مقابلے میں مضبوط ہوتی ہے۔

دوسرا گروپ جس کے مفادات کو حکومتیں تحفظ دیتی ہیں، وہ آٹا مل مالکان کا ہے۔ فلور ملیں گندم منڈی سے بھی خریدتی ہیں اور صوبائی حکومتیں بھی انہیں رعایتی نرخوں پر گندم فراہم کرتی ہیں۔ مؤخر الذکر کی منطق یہ ہے کہ یہ ملیں عوام کو کم قیمت پر آٹا فراہم کریں گی۔

تاہم، نظام اس کے بالکل اُلٹ کام کرتا ہے۔ فلور ملز مہنگی قیمت والی گندم اور کم قیمت والی حکومت کی فراہم کردہ گندم کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتیں اور آٹے کو اوسط قیمت پر فروخت کر دیتی ہیں۔ آٹے کو اوسط قیمت پر فروخت کرنے کے نتیجے میں  اضافی منافع فلور مل مالکان کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔

ایک اور مراعات یافتہ گروپ کاغذ کے صنعت کاروں کا ہے۔ اس شعبے میں تین بڑی ملوں کا غلبہ ہے۔ تجارت اور ٹیکس لگانے کے پہلے سال کی نصابی کتابیں یہ بتاتی ہیں کہ خام مال کی درآمد پر کم شرحوں پر محصول عائد کیا جاتا ہے اور تیار شدہ مصنوعات کو درآمد پر زیادہ شرحوں پر عائد کیا جاتا ہے۔ مقصد تیار شدہ مصنوعات کی مقامی تیاری کو فروغ دینا ہے تاکہ قیمت میں اضافے سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔

پاکستان کاغذ کے معاملے میں الٹی منطق پر عمل پیرا ہے۔ گودا، جو کاغذ کی تیاری کے لئے درآمد کیا جاتا ہے، پر درآمدی ڈیوٹی کم رکھی جاتی ہے۔ تاہم، کاغذ پر ڈیوٹی، جو طباعت کے لئے خام مال ہے، حد سے زیادہ ہے، اور طباعت شدہ مواد ڈیوٹی فری ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مقامی پبلشر اب غیر ملکی پرنٹرز کے ساتھ چھپے ہوئے مواد کے آرڈر دے رہے ہیں اور چھپے ہوئے مواد کو ڈیوٹی فری درآمد کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اردو کے قاعدوں کے لئے بھی یہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید جو پہلے برآمد ہوتا تھا، اب بیرون ملک سے درآمد ہوتا ہے۔ اور ملک میں پرنٹنگ کی صنعت، جس میں کئی ہزار یونٹ شامل ہیں، ختم ہو رہی ہے جس کے ساتھ ہزاروں ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں۔

کھاد کی صنعت ایک اور مفاد پرست طبقہ ہے۔ کھاد کے لئے 90 فیصد سے زیادہ خام مال قدرتی گیس ہے، جو اسے 80 فیصد سے زیادہ سبسڈی پر فراہم کی جاتی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ زرعی اجناس کی پیداواری لاگت کو کم رکھنے کے لئے کھاد کی قیمت کم رکھنی ہوگی۔ تاہم، آٹے کی طرح اس سبسڈی کا بھی زیادہ تر حصہ اضافی منافع کے طور پر فلور مل مالکان جیب میں جاتا ہے۔

قومی معیشت کو مؤثر اور مساوی طریقے سے سنبھالنے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔




ڈاکٹر قیصر بنگالی کا یہ مضمون 13 اپریل 2020 کو The News International میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے محمد عبدالحارث نے ترجمہ کیا ہے۔
مزیدخبریں