قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس: بینچ میں موجود ججز میں تند و تیز جملوں کا تبادلہ

05:33 PM, 20 Apr, 2021

اسد علی طور
11 بج کر 26 منٹ پر کورٹ روم نمبر ون میں داخل ہوا تو کمرہ عدالت وکلا اور صحافیوں سے بھرا ہوا تھا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ گرے کلر کے سوٹ میں اکیلے بیٹھے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اکیلے بیٹھے دیکھ کر ساتھی صحافی حسن ایوب سے سوال کیا کہ مسز سرینا عیسیٰ آج نہیں آئی ہیں؟ حسن ایوب نے جواب دیا وہ تھوڑی دیر پہلے کمرہ عدالت سے باہر گئی ہیں۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آج دس رکنی فل کورٹ سماعت ساڑھے 11 بجے نہیں 12 بجے شروع کرے گا۔ تھوڑی ہی دیر میں مسز سرینا عیسیٰ کمرہ عدالت میں آ گئیں۔ کیونکہ آج بھی دلائل مسز سرینا عیسیٰ نے دینے تھے تو سب سے پہلے اپنی والدہ کی معاونت کرنے والی سحر عیسیٰ بیٹھی تھیں اور ان کے ساتھ مسز سرینا عیسیٰ جب کہ ان کے ساتھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بیٹھے تھے۔ آج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جس انداز پر اپنی اہلیہ کی نشست کے سرہانے پر بازو رکھ کر ان سے گپ شپ کر رہے تھے اس سے لگ رہا تھا وہ آج بہت پرسکون ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کی FBR میں معاونت کرنے والے نوجوان وکیل کبیر ہاشمی آج کمرہ عدالت میں کافی متحرک نظر آ رہے تھے اور بار بار آ کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کان میں کچھ بتا رہے تھے۔ 12 بج کر 5 منٹ پر کورٹ آ گئی کی آواز لگی اور دس معزز جج صاحبان کمرہ عدالت میں آ کر اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔

مسز سرینا عیسیٰ جیسے ہی روسٹرم پر پہنچیں جسٹس مقبول باقر نے ان کو ہدایت کی کہ وہ اپنی بات کو بہت اختصار کے ساتھ بیان کریں کیونکہ بینچ کے تمام ججز ان کی جمع کروائی ہوئی دستاویزات پڑھ کر آئے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر کا مسز سرینا عیسیٰ کو مزید کہنا تھا کہ آپ کوشش کریں اپنی استدعا اور دلائل کی سمری بلٹ پوائنٹس کے صورت میں بینچ کو دے دیں تاکہ سماعت جتنی جلدی ہو سکے مکمل ہو۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی جسٹس مقبول باقر کی ہدایت میں اضافہ کرتے ہوئے مسز سرینا عیسیٰ کو کہا کہ براہ مہربانی صرف آرڈر میں کیا غلطیاں ہیں ان کی نشاندہی کریں۔ مسز سرینا عیسیٰ نے بینچ کو بتایا کہ وہ اپنے دلائل شروع کرنے سے پہلے ایک اہم استدعا بینچ کے سامنے رکھنا چاہتی ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ بینچ کے معزز سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کل کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے موجود میرے ٹیکس ریٹرن کی رپورٹ جاری کر دی جائے اور میں اس پر تحفظات رکھتی ہوں۔

مسز سرینا عیسیٰ نے اپنے تحفظات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس ریٹرن ان کا نجی معاملہ ہے اور ٹیکس قوانین انہیں یہ تحفظ دیتے ہیں کہ ان کے ٹیکس معاملات تک تو ان کے شوہر کی بھی رسائی نہیں ہو سکتی۔ مسز سرینا عیسیٰ کہنا تھا کہ میرے ٹیکس ریٹرن پر FBR کی خفیہ رپورٹ عام کر کے عدالت میری پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میرے بنیادی حقوق کا متاثر کرے گی۔ مسز سرینا عیسیٰ نے اب اپنی رپورٹ جاری نہ کرنے کی اصل وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی رپورٹ کے منتخب حصے میڈیا کو جاری کر کے اپنی مرضی کا آدھا سچ بول کر ان کی کردار کشی کی ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر ان کی رپورٹ جاری کر دی گئی تو فردوس عاشق اعوان، فواد چوہدری اور شہزاد اکبر ٹی وی انٹرویوز میں اور بول ٹی وی جیسے چینل ٹاک شوز میں رپورٹ کو توڑ مروڑ کر بیان کریں گے۔ مسز سرینا عیسیٰ کی آواز اس موقع پر بھرا گئی اور انہوں نے معزز بینچ سے استدعا کی کہ پہلے ہی وہ اپنی کردار کشی اور میڈیا میں تبصروں کی وجہ سے ہزاروں بار مر چکی ہیں اب مزید نہیں مرنا چاہتیں کیونکہ پچھلے دو سال سے اس اذیت سے گزر رہی ہیں۔

مسز سرینا عیسیٰ نے یہ جملہ ابھی ادا ہی کیا تھا کہ جسٹس منیب اختر بولے کہ مسز سرینا عیسیٰ آپ بطور پیٹشنر یہ درخواست کیسے کر سکتی ہیں کہ مجھے تو رپورٹ دے دو لیکن بینچ میں کوئی نہیں پڑھ سکتا؟ مسز سرینا عیسیٰ نے جواب دیا میں نے اپنے پڑھنے کے لئے بھی بینچ سے رپورٹ نہیں مانگی تھی۔ جسٹس منیب اختر نے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے کہا کہ شاید کل آپ کے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استدعا کی تھی۔ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اپنے سامنے موجود مائیک کا بٹن دبا کر کہا کہ میں نے بھی کل کوئی ایسی درخواست نہیں کی کہ سرینا عیسیٰ کی رپورٹ عام کر دی جائے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میرے ٹیکس امور کے بارے میں رپورٹ چیئرمین FBR نے سپریم جوڈیشل کونسل کو جمع کروائی حالانکہ چیئرمین FBR نے نہ تو آج تک مجھے اور نہ ہی میرے شوہر کو سننے کے لئے نوٹس بھیجا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے بینچ کو وضاحت کی کہ وہ بینچ کے سامنے ریونیو کمشنر ذوالفقار احمد کے آرڈر کو چیلنج نہیں کر رہیں بلکہ صرف ذوالفقار احمد کی بطور افسر مفادات کے ٹکراؤ پر بات کریں گی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کل اپنی کی ہوئی بات سے ہٹ رہی ہیں؟ مسز سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ بالکل ایسا نہیں ہے، میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ ذوالفقار احمد کے آرڈر کو چیلنج کرنے کا فورم یہ نہیں ہے اور یہاں میں نے صرف آپ کے مجھے FBR بھیجنے کے حکمنامے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں ان کو FBR بھیجنے کا حکمنامہ غلط تھا تو اس کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے بینچ کو بتایا کہ FBR نے ان کی تحقیقات ذوالفقار احمد کے سامنے مقرر کیں جو ان کے خلاف پہلے سے ہی ذہن بنائے ہوئے تھے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہیں جو نوٹسز موصول ہوئے ان کے جواب دینے کے لئے انہیں FBR کے قانون میں موجود پندرہ دن کا وقت بھی نہیں دیا گیا۔

مسز سرینا عیسیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرے ٹیکس امور کی تحقیقات ذوالفقار احمد کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں تھیں کیونکہ وہ اس کیس میں فریق نہیں تھیں تو ان کے خلاف بینچ فیصلہ نہیں دے سکتا تھا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بینچ کو رضاکارانہ طور پر اپنی جائیدادوں اور آمدن کے بارے میں تمام دستاویزات کے ساتھ جواب دیا لیکن بینچ نے اس پر انحصار کیے بغیر ان کو FBR بھجوا دیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ مسز سرینا عیسیٰ آپ فریق نہیں تھیں لیکن آپ کو بینچ نے آپ کی درخواست پر سنا تھا۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فوراً اٹھ کر روسٹرم پر آئے اور انہوں نے بینچ کو یاد دلایا کہ دراصل جب جسٹس عمر عطا بندیال نے پہلی دفعہ یہ تجویز دی تھی کہ وہ معاملہ FBR کو بھیج سکتے ہیں تو میری اہلیہ نے مجھے ہدایت دی کہ جا کر بینچ کو آگاہ کروں کہ کیس کو یہیں طے کریں اور اس کے لئے وہ عدالت کی معاونت کرنے کے لئے عدالت کو اپنے مالی اور ٹیکس معاملات اور بیرون ملک جائیدادوں پر جواب دینا چاہتی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ مسز سرینا عیسیٰ یا انہوں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) نے کبھی عدالت سے اتفاق نہیں کیا تھا کہ ان کی اہلیہ کو FBR بھیج دیا جائے۔

فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آپ کو بات سمجھ نہیں آئی، آپ اپنی نشست پر جا کر بیٹھ جائیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے مسز سرینا عیسیٰ کو دوبارہ مخاطب کیا اور کہا کہ آپ اس کیس میں فریق نہیں تھیں لیکن فریق کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے آرڈر کا شکار ہو گئیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ عدالت کو ان کے شوہر پر اٹھے سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے راستہ درکار تھا اور وہ راستہ اختیار کرنے کے لئے ان (مسز سرینا عیسیٰ) کے بارے میں فیصلہ دیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ مسز سرینا عیسیٰ آپ جس تکلیف اور اذیت سے گزری ہیں ہم اس کو سمجھ سکتے ہیں لیکن اب کیونکہ آپ اس کیس کی نظر ثانی اپیلوں میں پہلی دفعہ عدالت کے سامنے پیش ہو رہی ہیں تو ہم آپ کو اپنی کہانی بیان کرنے کے لئے مکمل وقت دینا چاہتے ہیں اور آپ کے کیس کو سمجھنے کے لئے آپ سے سوالات بھی کریں گے۔

دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے اہم آبزرویشن دی کہ مسز سرینا عیسیٰ آپ نے کسی جعلی اکاؤنٹ کا سہارا نہیں لیا بلکہ اپنے نام پر بینک اکاؤنٹ کھولا اور اپنے اکاؤنٹ سے رقوم برطانیہ بھیج کر جائیدادیں خریدیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ 2009 سے پہلے جو جائیداد آپ نے برطانیہ میں خریدی وہ کیس نہیں ہے لیکن 2009 میں جب آپ کے شوہر بلوچستان ہائی کورٹ میں چیف جسٹس تعینات ہوئے تو اس کے بعد آپ نے 2013-14 میں جو جائیدادیں خریدیں، سوال صرف ان کا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے مسز سرینا عیسیٰ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو یہاں یوں اپنے سامنے کھڑا دیکھنا میرے اور میرے ساتھی ججز کے لئے بہت تکلیف دہ ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے مسز سرینا عیسیٰ کو بتایا کہ وہ اس لئے سب کا سامنا کر رہی ہیں کیونکہ ان کے شوہر پبلک آفس ہولڈر ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اس تمام مقدمے میں ایک بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ آپ اور آپ کے شوہر اگر بہت سے سوالات کے جواب پہلے دے دیتے تو دو سال بعد بھی یہ معاملہ زیر سماعت نہ ہوتا۔ جسٹس مقبول باقر نے مسز سرینا عیسیٰ کو ہدایت کی کہ وہ فیصلہ میں کہاں غلطی ہوئی اس کی نشاندہی کریں کیونکہ نظرثانی کی اپیلوں کا دائرہ کار بہت محدود ہے۔

مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے آرڈر سے قبل FBR نے آج تک انہیں یا ان کے شوہر کو کوئی نوٹس نہیں بھیجا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ٹیکس قوانین کے تحت عدالت کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ FBR کو ہدایت دیتی کہ وہ کسی کو نوٹس بھیجے۔ مسز سرینا عیسیٰ نے دلیل دی کہ پورے پاکستان میں واحد جج کی بیوی ہیں جن کو اس غیر معمولی آرڈر کے لئے منتخب کیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر اہم آبزرویشن دی کہ اگر ہم ان اپیلوں کو منظور نہیں کرتے تو FBR کے آرڈر کے خلاف مسز سرینا عیسیٰ کے پاس عدالتوں سے رجوع کا آپشن ہوگا اور اگر ہم نے نظر ثانی کی اپیلوں کو منظور کر لیا تو FBR نے جتنی تحقیقات اور کارروائی کی وہ سب کالعدم ہو جائیں گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مسز سرینا عیسیٰ کو ہدایت کی کہ وہ بینچ کو بتائیں کہ کیا ہم FBR کو حکم دے سکتے تھے یا نہیں؟ مسز سرینا عیسیٰ نے اس سوال کا بہت دلچسپ جواب دیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اس کیس کا فیصلہ سنانے والے دس ججز میں سے دو ججز جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب نے وزیر اعظم عمران خان کے ٹیکس معاملات والے فیصلہ پر بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک سیاستدان ہیں، ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور اب رکن اسمبلی منتخب ہو کر پاکستان کے وزیر اعظم بھی بن گئے ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ اگر وزیر اعظم کے ٹیکس امور میں بے ضابطگی تو ان پر آرٹیکل 62، 63 لاگو ہوتا ہے۔

مسز سرینا عیسیٰ نے اپنے کیس کا وزیر اعظم عمران خان کے کیس سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تو ایک عام شہری ہوں، نہ ہی کبھی انتخابات میں حصہ لیا اور نہ ہی کبھی پبلک آفس ہولڈر رہی۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کر دی اور جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب کے دستخط شدہ فیصلے میں وزیر اعظم عمران خان کے ٹیکس گوشواروں کی تحقیقات کے لئے FBR نہیں بھیجا گیا لیکن میرے ایک عام شہری ہونے کے باوجود مجھے FBR بھجوایا گیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کو سپریم کورٹ نے نوٹس بھیجا اور انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے عدالت کو جواب دیا جب کہ خود ایک بار بھی سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوئے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مجھے عدالت نے نوٹس بھی نہیں بھیجا تھا پھر بھی میں رضاکارانہ طور پر پیش ہوئی اور دستاویزات کے ساتھ جواب دیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف FBR نے خود سے نہیں بلکہ عدالت کے حکم پر کارروائی شروع کی۔

مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ FBR نے انہیں جوابات کے لئے درکار وقت نہ دے کر ان کو شفاف ٹرائل کے بنیادی حق سے محروم کر دیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ خودمختار ہیں اور اپنے ٹیکس ریٹرن خود جمع کرواتی ہیں لیکن ان کی جائیدادیں ان کے شوہر کے ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہ کرنے کا کہہ کر FBR قوانین کے تحت ان کو حاصل ان کے بطور خود مختار خاتون کے حق کے تحفظ کی نفی کی گئی۔ مسز سرینا عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ وہ کیس میں فریق نہیں تھیں لیکن ان کو نوٹس کر کے سنے بغیر ان کے بارے میں حکم دے دیا گیا۔ جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر مسز سرینا عیسیٰ کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ کو سنا گیا تھا۔ مسز سرینا عیسیٰ اپنی گذارشات کے بلٹ پوائنٹس پڑھتی جا رہی تھیں اور وہ جسٹس منیب اختر کو نہیں سن سکی تھیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے بتاتا چلوں کہ مسز سرینا عیسیٰ کیونکہ ایک سکول ٹیچر رہی ہیں تو وہ بالکل سکول ٹیچر کی مانند بلند آواز اور سپاٹ لہجے میں اپنی دستاویزات کو پڑھ رہی ہوتی ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے اب اونچی آواز میں مسز سرینا عیسیٰ کو ٹوکا کہ آپ نے مجھے سنا نہیں؟ میں آپ کو کہہ رہا ہوں کہ ہم نے آپ کو سن کر فیصلہ دیا تھا۔ مسز سرینا عیسیٰ نے معذرت کی کہ وہ جسٹس منیب اختر کو نہیں سن پائی ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے طنز کیا کہ آپ وکیل نہیں ہیں اور اس لئے آپ کو سماعت کا طریقہ کار نہیں معلوم۔ مسز سرینا عیسیٰ نے درخواست کی کہ ان کے چند بلٹ پوائنٹس باقی رہ گئے ہیں، اگر انہیں وہ پورے کرنے دیے جائیں۔ جسٹس منیب اختر نے ہدایت کی کہ نہیں پہلے آپ اپنا 18 جون کو ریکارڈ کروایا گیا بیان پڑھیں۔ مسز سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ وہ بیان ابھی ان کے پاس نہیں ہے لیکن انہیں اپنا ایک ایک حرف یاد ہے اور وہ اس پر قائم ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے برہمی سے کہا کہ مجھے یہ قبول نہیں ہے کہ آپ کو جو کہہ رہا ہوں آپ وہ نہیں کر رہیں۔ جسٹس منیب اختر نے سخت لہجے میں دہرایا کہ مسز سرینا عیسیٰ آپ 18 جون کو وڈیو لنک پر ریکارڈ کروایا گیا بیان پڑھیے۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ مسز سرینا عیسیٰ آپ کہنا چاہ رہی ہیں کہ آپ نے 18 جون کو جو بیان دیا تھا، 19 جون کو فیصلہ کرتے وقت عدالت نے اس پر انحصار نہیں کیا۔ جسٹس مقبول باقر نے بھی مسز سرینا کو ہدایت کی کہ وہ اپنے نکات پر فوکس کریں۔ اب جسٹس منیب اختر شدید برہم ہوئے اور انہوں نے بلند آواز میں اپنے سے سینیئر دونوں ججز کو نام لیے بغیر تنبیہ کی کہ میں اس بینچ کا جج ہوں اور یوں نہیں ہو سکتا کہ میں پیٹشنر سے کوئی سوال کروں اور اس کا جواب دوسرا جج دے رہا ہو اور ایک جج میرے سوال کو نظر انداز کر کے کارروائی آگے بڑھا رہا ہو۔ بینچ کے جج کی ساتھی ججز پر یہ تنقید بہت غیر معمولی تھی کیونکہ ہم دیکھتے رہتے ہیں کہ ایک جج کوئی سوال کرتا ہے تو بینچ کا کوئی دوسرا رکن جج پیٹشنر کے جواب دینے سے پہلے ایسے ریمارکس دے دیتا ہے جس میں پہلے جج کے سوال کا بالواسطہ جواب بھی ہوتا ہے لیکن کوئی برا نہیں مناتا اور نہ ہی ایسے تنبیہ کرتا ہے بینچ کے ساتھی ججز کو۔

جسٹس منیب اختر کا مزید کہنا تھا کہ وہ جج ہیں اور ان کا حق ہے کہ وہ سوال پوچھیں اور پیٹشنر کو جواب دینا ہوگا۔ مسز سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ انہوں نے وڈیو لنک پر 18 جون کو جو بیان ریکارڈ کروایا تھا وہ انڈر اوتھ نہیں تھا اور اس لئے اس کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی نشست سے اٹھ کر مسز سرینا عیسیٰ کی مدد کو آئے انہوں نے بینچ کو وضاحت کی کہ مسز سرینا عیسیٰ دراصل کہنا چاہ رہی ہیں کہ وہ اپنے بیان میں بتائے گئے ایک ایک لفظ پر قائم ہیں لیکن کیونکہ معزز ججز بار بار ہدایت کر رہے ہیں کہ آپ اختصار سے دلائل دیں تاکہ جلد فیصلہ کیا جا سکے اس لئے وہ اپنے بیان کو پڑھ کر عدالت کا وقت نہیں ضائع کرنا چاہتی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جذباتی ہوتے ہوئے بینچ سے کہا کہ ان کی اہلیہ کوئی وکیل نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے آج تک اتنے لوگوں کے سوالات کا اس طرح سامنا کیا ہے، براہ مہربانی ان کو بات پوری کرنے دیا کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ججز کو یہ بھی کہا کہ براہ مہربانی خیال کریں کل آپ کی اہلیہ کو بھی یہاں یوں کھڑا کیا جائے گا تو اپنی اہلیہ کو میری اہلیہ کی جگہ رکھ کر سوچیے کہ وہ کس مشکل صورتحال سے دوچار ہوں گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف دیکھ کر کہا کہ معزز بینچ کے ججز کیس سننے کے لئے بیٹھے ہوتے ہیں، وہ درخواست قبول یا مسترد کرسکتے ہیں لیکن وہ کسی کو یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ کیسے دلائل دے اور کیسے نہیں۔ یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یہ کہہ کر تیزی سے واپس جا کر اپنی نشست پر بیٹھ گئے اور انہوں نے سر جھکا لیا۔

جسٹس منیب اختر نے اپنے ریمارکس کا جہاں سے سلسلہ ختم ہوا تھا وہیں سے دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا کہ آپ خود پیش ہوئی تھیں بیان دینے کے لئے۔ جسٹس منیب اختر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ کوئی مجھے مت بتائے کہ سماعت کیسے چلانی ہے میں قانون جانتا ہوں اور اسی لئے عدالت کا جج ہوں۔ جسٹس منیب اختر نے مسز سرینا عیسیٰ کو دوبارہ مخاطب کر کے سختی سے کہا کہ آپ اپنا بیان نہیں پڑھتیں تو میں خود پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ مسز سرینا جو اپنے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے روسٹرم پر آنے کے بعد سے لے کر مکالمہ کر کے واپس جانے تک سر جکھائے کھڑی تھیں اب بولیں تو ان کی آواز آنسوؤں میں رندھی ہوئی تھی اور انہوں نے روتے ہوئے بینچ سے کہا کہ بالکل میں خود اپنا بیان دینے پیش ہوئی تھی اور میں اس لئے آئی تھی کہ کینسر کے مریض میرے باپ نے ڈیتھ بیڈ سے مجھے کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر جو الزام لگ رہا ہے وہ میری وجہ سے لگ رہا ہے تو میں جا کر جواب دوں اور میں وہ جواب دینے آئی تھی اور میں اپنے ریکارڈ کروائے گئے ایک ایک لفظ پر قائم ہوں۔ مسز سرینا جس وقت روتے ہوئے یہ جملے ادا کررہی تھیں تو کم از کم بینچ کے بائیں طرف واضح اضطراب دیکھا جا سکتا تھا اور مسز سرینا عیسیٰ کی بیٹی سحر عیسیٰ اپنی ماں کا کاندھا تھامے ہلکے ہلکے دباتے ہوئے ان کو تسلی دینے کی کوشش کر رہی تھیں۔

اس موقع پر ایسا لگا کہ شاید ڈیرہ اسماعیل خان کے کم گو جسٹس مظہر عالم میاں خیل کا صبر جواب دے گیا اور انہوں نے مسز سرینا عیسیٰ سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کا ریکارڈ کروایا ہوا بیان ہمارے پاس موجود ہے اور ہمیں اس کو دوبارہ سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ براہ مہربانی صرف بلٹ پوائنٹس پڑھیے۔ جسٹس مقبول باقر بھی انتہائی نرمی سے بولے کہ مسز سرینا عیسیٰ آپ صرف شارٹ آرڈر پر آپ کا جو اعتراض ہے وہ ہم نے سن لیا ہے آپ براہ مہربانی بیٹھ جائیے۔ مسز سرینا عیسیٰ جب روسٹرم سے جانے لگیں تو جسٹس عمر عطا بندیال جو مسز سرینا عیسیٰ کو روتا دیکھ کر پیچھے ہو کر اپنی نشست سے ٹیک لگائے خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہے تھے انہوں نے ماییک کے قریب ہوکر کہا مسز سرینا آئی ایم سوری۔ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ اور اگلے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جب مسز سرینا عیسیٰ کو سوری بولا تو تھوڑے سے توقف سے جسٹس منیب اختر نے بھی مائیک کو قریب کر کے مسز سرینا عیسیٰ کو مخاطب کیا کہ مسز سرینا عیسیٰ میں معذرت کرنا چاہتا ہوں میرا مقصد آپ کو پریشان کرنا نہیں تھا۔

مسز سرینا عیسیٰ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دوبارہ روسٹرم پر آ گئے اور انہوں نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بینچ کے ججز نے بالکل درست کہا کہ کسی جج پر داغ نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگر میں نے اپنی بیوی کی جائیدادیں اور میری بیوی نے میری جائیدادیں اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہ کر کے جرم کیا ہے تو میں حکومت کو بتانا چاہتا ہوں میں پچھلے دو سال سے یہ جرم دہرانے سے باز نہیں آیا اور وہ میرے خلاف کارروائی کرے کیونکہ میں نے پچھلے دو سال کے ٹیکس گوشواروں میں بھی یہ اثاثے ظاہر نہیں کیے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا کہ میں ملک، آئین اور اس عدالت کا مجاہد ہوں اور آئین اور عدالت کے تحفظ کی خاطر جان بھی دینی پڑی تو دوں گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قسم کھا کر کہا کہ خدا کی قسم مجھے چیف جسٹس بننے یا جج کی کرسی پر بیٹھنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن میں اس ادارے کی عزت اور ساکھ کی خاطر لڑ رہا ہوں کہ کوئی کل اس ادارے پر یوں دوبارہ حملہ آور نہ ہو سکے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ یہ ملک شہزاد اکبروں اور عاصم سلیم باجووں کا ہے جو بیرون ملک کمپنیاں بناتے ہیں لیکن FBR کو جرات نہیں ہوتی پوچھنے کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر نے FBR کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کر کے ادارہ تباہ کر دیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں نے فیض آباد دھرنے کا فیصلہ دیا اور اس پر تو عمل نہ کیا گیا لیکن میرے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ روسٹرم پر کھڑے انتہائی جذباتی انداز میں دلائل دے رہے تھے تو ان کی صاحبزادی اپنی نشست سے اٹھ کر ان کے پاس آئیں اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں ٹھنڈا کرنا چاہا اور اس دوران نوجوان وکیل کبیر ہاشمی بھی چل کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے قریب آ کر کھڑے ہو گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میرا تعلق اس خاندان سے ہے جنہوں نے پاکستان بنایا لیکن قائد کا آدھا ملک تو توڑ دیا گیا۔

اب جذبات سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آواز بھی بھرا گئی اور انہوں نے کہا کہ ہم اس ملک سے کچھ لیتے نہیں لیکن اس ملک کو دیں گے ضرور اور اگر جان بھی دینی پڑی تو دیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ واپس جا کر نشست پر بیٹھے تو فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ان کو دوبارہ روسٹرم پر بلا کر کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آپ نے ہمیں اتنی سنا دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا نہیں سر میں نے آپ کو نہیں حکومت کو سنائی ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ نے حکومت کو سنانی ہیں تو باہر جا کر سنائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں کوئی سیاست دان نہیں جو پبلک فورم پر جاؤں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال سے معذرت کی کہ وہ جذباتی ہو کر کچھ زیادہ بول گئے لیکن وہ اپنی ذات کے لئے جذباتی نہیں ہوتے بلکہ آئین اور سپریم کورٹ کے ادارے کے لئے جذباتی ہوتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ جسٹس عیسیٰ میں آپ سے کتنا پیار کرتا ہوں وہ میں یہاں نہیں بتا سکتا اور آپ اپنے والد کا ذکر کرتے ہیں تو ہم سب جانتے ہیں آپ کتنی اچھی ساکھ والے انسان ہیں لیکن یہاں ہمیں جذبات پر نہیں قانون پر فیصلہ کرنا ہے۔ اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس عیسیٰ آپ کی اور میری ایک دن ملاقات ہوئی تو یاد ہے میں نے آپ سے کیا کہا تھا اور آپ نے مجھے کیا کہا تھا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ وہ عدالت سے باہر کی باتیں یہاں نہیں کرنا چاہیں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ بالکل میں جذبات میں آ کر کوئی بات نہیں کہنا چاہتا اور مسز سرینا عیسیٰ سے بھی ایک جگہ پر میرا سامنا ہوا تو میں نے ان کو بھی کیا کہا تھا وہ آپ ان سے پوچھ لیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ قرآن کی آیات پڑھتے رہتے ہیں اور دعاگو رہتے ہیں کہ اللہ ان سے کسی کی دشمنی یا دوستی میں غلط فیصلہ مت کروا دینا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہمیں قانونی راستہ چاہیے تھا کیس کے فیصلے کے لئے جو مسز سرینا عیسیٰ نے بنا دیا ہے اور انہوں نے بہت ٹھوس جواب دیے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ اگر آپ کو جواب مل گئے ہیں تو پھر کیس ختم کریں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ کیس ختم کرنے کے لئے آپ کو تین سوالوں کے جواب دینے ہوں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو تینوں سوالات لکھوائے جو درج ذیل تھے۔ پہلا سوال کیا آپ کا اپنی بیوی کے اکاؤنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ دوسرا سوال تھا کہ کیا بیرون ملک بھیجی گئی رقوم سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کوئی تعلق نہیں ہے؟ اور آخری سوال تھا کہ کیا بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کوئی تعلق نہیں ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ کو پیشکش کی کہ وہ ان سوالات کا ابھی فوری جواب دے سکتے ہیں لیکن جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں کل یہ جوابات دینے کی ہدایت کی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کمرہ عدالت میں اعلان کیا کہ کیس کی سماعت کل سے صبح 9 بجے ہوگی اور چھوٹے کمرہ عدالت میں ہوگی۔ سماعت ختم ہوئی تو کمرہ عدالت سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ آج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مسز سرینا سماعت کے آغاز سے قبل جتنے پرسکون لگ رہے تھے شاید ان سمیت کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ آج سماعت کے دوران اتنے افسوسناک مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔
مزیدخبریں