اس پر روزنامہ انقلاب نے ”ریاست کشمیر اور مسلمان“ کے نام سے اداریہ لکھتے ہوئے راجا کو مشورہ دیا کہ وزیر کسی ایسے مسلمان کو بنایا جائے جو کشمیر کے علاوہ ہندوستان کے باقی حصوں میں مقبول بھی ہو اور مسلمان اس پر اعتماد بھی کرتے ہوں تاکہ دونوں اطراف کے دل جیتے جا سکیں۔ ایسی مسلمان شخصیت اقبال کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ یہ اداریہ پڑھ کر ہندو اخبار پروپیگنڈا کرنے لگے۔ اس کے کچھ دن بعد ہی یوم کشمیرمنایا گیا۔
کشمیر کمیٹی کے سرگرم رکن سید محسن شاہ نے ہندو اخبارات کے پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے کیسری اخبار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ”ہندو کہتے ہیں کہ محسن شاہ جج اور اقبال وزیراعظم بننا چاہتا ہے“۔ یعنی انہیں کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم سے پرکشش عہدے زیادہ عزیز ہیں۔ اقبال نے یہ سنا تو تقریر ختم ہونے کا انتظار بھی نہ کیا اور مداخلت کرتے ہوئے کہا”میں ایسے حاکم کی وزارت پر لعنت بھیجتا ہوں“۔ اقبال کے نزدیک وزارت لینا لیکن مظلوم کے ساتھ کھڑا نہ ہونا ایک لعنت ہے۔
اقبال ایک شاعر ہی نہ تھے بلکہ وہ وقت کے قلندر تھے۔ کشمیر کے باب میں ان کا میر جعفر اور میر صادق کا ذکر کرنا کسی حکمت سے بہرحال خالی نہیں ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کشمیر کو اصل خطرہ ”غیروں“سے نہیں بلکہ ”اپنوں“سے ہے۔ کشمیر کی آزادی کے لیے وہ میر جعفر اور میر صادق سے بچنے کا مشورہ دہتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ دو شخصیات کا نام نہیں بلکہ دو کردار ہیں، یہ ہر دور میں ہوں گے اور ان کی قوم فروشی اور غداری کا سلسلہ بھی موجود رہے گا۔آض ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیرکے معاملے پر ہمیں دشمن کی ہر چال کا سدباب کرنا ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے اندرجعفر و صادق کو بھی پہچاننا ہو گا کیونکہ ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی امت مسلمہ فتنوں کا شکار رہے گی۔ وہ کہتے ہیں:
ملت را ہر کجا غارت گرے است
اصل او از صادقے یا جعفرے است
الاماں از روح جعفر الاماں
الاماں از جعفران ایں زماں
اقبال نے جہاں جعفر وصادق کی روح سے پناہ مانگی ہے وہیں یہ دعا بھی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس زمانے کے جعفر سے اپنی حفظ واماں میں رکھے۔آج ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم میں بھی ان کی روح تو نہیں سما گئی؟ اقبال نے ہمیں متنبہ کیا تھا کہ جسم جس کا بھی ہو روح اگر جعفر کی ہوئی تو تباہی مقدر بنے گی۔ اقبال کشمیر کے تناظر میں ان کرداروں کے معاملے میں اتنے حساس تھے کہ وادی کشمیر کے ایک سیاستدان غلام محی الدین قرہ کا کہنا ہے کہ اقبال کی محفل آراستہ تھی۔
عبدالمجید سالک بھی وہیں موجود تھے۔انہوں نے کہا”نظام حیدر آباد دکن آپ کے ان اشعار کو پسند نہیں کرتے جن میں جعفر کا ذکر ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان میں ان کے جد امجد کی توہین کی گئی ہے“۔ اقبال یہ سن کر چونک پڑے اور فرمانے لگے ”سالک تم نے یہ کہہ کر میرے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ اب میں کبھی ان کا وظیفہ قبول نہیں کروں گا“۔
فوراً ہی علی بخش کوبلا کرکہا”آئندہ جب بھی نظام کا منی آرڈر آئے تو اسے فوراًبھیجنے والے کے نام واپس لوٹا دیا کرو“۔آج ہمارا کردار ان سے قطعاً مختلف ہے،ہم انہیں شاعر قومی شاعر اورمصور پاکستان بھی کہتے ہیں لیکن ان ممالک سے بھیک بھی مانگتے ہیں جو کشمیر کے معاملے پر انڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں۔اقبال نے نظام کا وظیفہ ٹھکراکر یہ پیغام دیاتھا کہ بھیک مانگنے والے کبھی جرات مندانہ موقف اپنا سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا ان کی بات پر کان دھرا کرتی ہے۔ افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے اس بات کو سنجیدہ لیااور نہ ہی اس کا کوئی سدباب کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کشمیر پر انڈیا کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ ہم ایک طرف سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بننے کے لیے انڈیا کی غیرمشروط حمایت کرتے ہیں لیکن دوسری طرف کشمیرکاماتم بھی کرتے ہیں۔
ستر سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا،اقوام متحدہ کئی ایک معاملات سلجھا چکا لیکن کشمیر کا وہ مسئلہ کیوں نہ حل ہوا جس کے حل پردونوں کا ممالک کا اتفاق بھی ہے۔
اقبال کے نزدیک اس کا حل امت مسلمہ کا اتحاد تھا۔یہ1921 کی بات ہے۔خواجہ سعدالدین شال اور سید نور شال نقشبندی سری نگرکشمیر سے علامہ اقبال سے اس مسئلے پر بات کرنے آئے کہ انگریزوں کوپنجاب سے نکالنے کے لیے ہندو مسلم اتحاد ناگزیر ہے۔گفتگو سن کر اقبال تڑپ اٹھے اور فرمانے لگے کہ آزادی کے لیے پنجاب اور ہندوستان کے ہندواورمسلمان بھائی بھائی بن رہے ہیں لیکن کشمیرکاکیا؟ جس کے مسلمان ہندوؤں، سکھوں، ڈوگروں،برہمنوں اور بودھوں کے ظلم وستم کے نیچے 1846 سے جانوروں کی طرح انتہائی ذلت بھری زندگی گزار رہے ہیں۔بقول حفیظ جالندھری اقبال کافی دیرتک اس بات پر روتے رہے۔اقبال کارونااس بات پرتھا کہ اگرپنجاب کی آزادی کے لیے ہندواورمسلمان ایک ہوسکتے ہیں تو کشمیر کی آزادی کے لیے مسلمان کا ایکا کیوں نہیں ہوتا؟ کچھ عرصہ پہلے ہمیں بتایا جاتا تھا کہ عمران خان کی صورت میں ہمیں ایک ایسا لیڈر ملا ہے جسے مغرب میں عالمی لیڈر اور عرب دنیا میں مسلم امہ کے رہنما کے طور پردیکھاجاتا ہے۔لیکن آج بھارت نے ظالمانہ اقدام کیا تو معلوم ہواہمارے ساتھ تو کوئی بھی نہ تھا۔شاہ محمود قریشی کی تقریر سنی تو معلوم ہوا کہ مغرب میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اقوام متحدہ کے فورم پر ہمارے لیے ہار لیے کھڑا ہوا اورمشرقی امہ بھی کشمیرسے زیادہ بھارت میں سرمایہ کاری کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
ایک تعلیم یافتہ بیروزگار کشمیری نوجوان نے اقبال سے مدد مانگی۔ اقبال اس کی درخواست سن کر طیش میں آگئے اور فرمایا ”تمہارا اس وقت پنجاب میں ہونا اگرچہ دردناک نہیں تو تعجب انگیز ضرور ہے، تم بیکاری کا رونا رو رہے ہو اور تمہارے ہم وطن اپنی آزادی اور حقوق کے لیے طرح طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں، غربت اور بھوک کی شکایت کرتے ہو، اپنے وطن واپس چلے جاؤ، آزادی کی راہ میں کود پڑو، اگر قید ہو گئے تو کھانے کو تو ضرور مل جائے گا اور اس گداگری سے بھی جان چھوٹ جائے گی، اگر مارے گئے تو مفت میں شہادت پاؤ گے، اور کیا چاہیے؟ اگر کشمیر جانا ہو تو کرائے کے پیسے میں دے دیتا ہوں“۔
اقبال نے بتایا کہ کشمیر کے لیے کچھ دو، وسائل کی کمی کا بہانہ نہ بناؤ، اپنی جان قربان کرو، اس مقصد کے لیے قید ہونا بھی ایک سعادت ہے۔ لیکن ہم سلامتی کونسل اور اقوام عالم کو خط لکھ رہے ہیں، تجارت اور سمجھوتا ایکسپریس بند کر رہے ہیں اور ان کے سفیر کو واپس بھیج رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے یہ سب نہیں ہوا؟ یہ سب پہلے بھی ہوا لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ درپردہ مشرف منموہن فارمولے کو آگے بڑھایا جا رہا ہو؟ اقوام متحدہ بہتر سالوں میں ایک قرارداد پر عمل نہیں کراسکا اور ہم اس کے ”ناتواں کندھوں“ پر ایک اور بوجھ لاد رہے ہیں۔
لگتا ایسا ہے کہ انڈیا ظالمانہ اقدام کے بعد مذاکرات پر آمادہ ہو کر دنیا کی نظر میں گڈ بوائے بنے گا، کشمیر پر سخت مؤقف اپنائے گا اور پھر ادھر ہم ادھر تم کا راگ الاپے گا، ہمارا تو کہنا ہی یہی ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، لہذا قوم کو تیار کیا جائے گا، رائے عامہ ہموار کی جائے گی اور پھرکہا جائے گا کہ اگر انڈیا مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا ہے تو ہم بھی آزاد کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کر کے اسے اپنا حصہ بنا لیتے ہیں، اس طرح مشرف منموہن فارمولے پر عمل بھی ہو جائے گا اور دونوں ملکوں کی قیادت عوام کے احتجاج سے بھی بچ جائے گی۔ لیکن اگر ایسا ہے تو کشمیری پہلے کی طرح اب بھی اسے غداری سمجھیں گے اور اس کے خلاف مزاحمت کریں گے۔
اقبال کے نزدیک کشمیر کی آزادی کی روح یہ ہے کہ وہ مکمل آزاد ہو اور اگر اسے تقسیم کر کے کوئی حل نکالا گیا تو یہ آزادی نہیں اس کی روح کی پامالی ہے اور ایسا کرنے والے چاہے ہندو ہوں یا مسلمان،تاریخ میں محسن نہیں بلکہ ظالم کہلائیں گے کیونکہ اقبال نے انہیں ”دست جفا کیش“ کا خطاب دیتے ہوئے ان کے بارے میں کہاہے؛
توڑ اس دست جفا کیش کو یا رب جس نے
روح آزادی کشمیر کو پامال کیا ہے