(بندریانی بھابھی اپنی سہیلیوں میں نخروں سے کہتی ہونگی اف یہ شہرت)
سب کچھ سکھ شانتی سے چل رہا تھا کہ ایک دن اچانک بادشاہ سلامت و سالار اعظم عالی جناب شیر جی کی طبیعت خراب ہو گئی۔
ہرطرف پریشانی کے بادل اور سوگ کا سماں، تمام جانور بے چینی کے عالم میں ادھرادھر بھاگ دوڑ کر رہے تھے کہ لومڑی لال قلعوی نے بندر میاں کی مہارت آزمانے کا مشورہ دے ڈالا۔ جیسے تیسے بندر میاں کو دربار میں بلایا گیا، اب بندر کو اپنے اتائی پن کی سزا کی شدید فکر ستانے لگی کہ اگر بادشاہ سلامت پر کوئی ٹوٹکا الٹا اثر کر گیا تو موت کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ سوچ سوچ کربندرکوکوئی ٹوٹکا نہ سوجھا تو اچانک کود کرقریبی درخت پر چڑھ گیا اور ایک ڈال سے دوسری پھر تیسری اور پھر باجو والے درخت پر چھلانگیں اور گلاٹیاں کھانے لگا۔ کافی دیر یہ تماشا اور بادشاہ سلامت کی بگڑتی حالت دیکھ کر لومڑی نے آواز لگائی ابے اوبندر کی اولاد تجھے بادشاہ سلامت کے علاج کے لئے بلایا گیا ہے،سرکس دکھانے کے لئے نہیں چل نیچے اتراورعلاج کر کے بادشاہ سلامت کو ٹھیک کر کے دکھا۔
بندر بوکھلاہٹ میں پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے بولا۔۔ بادشاہ سلامت کے لئے ہی تو میں اتنی محنت کررہا ہوں کیا آپ کو میری محنت نظرنہیں آرہی ہے۔۔۔علاج کو چھوڑیں میری محنت پر فوکس کریں۔
محترم جناب عمران خان نیازی صاحب کی کپتانی میں ٹیم1992 کا ورلڈکپ جیتی،ریٹائرمنٹ کے بعد ملک میں کینسر کے مریضوں کے علاج کے لئے1994 میں ہسپتال کی بنیاد ڈالی۔ ورلڈ کپ ٹرافی اور ہسپتال کے قیام سے ملنے والی شہرت اور عزت کی شاندار نمائش کے بعد ملک میں جاری روایتی،اقربا پروری، رشوت خوری،چوربازاری پر مشتمل کرپٹ سیاسی نظام کے علاج کی خاطر تبدیلی اور چوروں لٹیروں کو عبرت کا نشان بنانے کے نعرہ کے ساتھ1996میں ایک عدد سیاسی پارٹی کی بنیاد ڈالی اور اپنے نظریہ کو 22سال تک ملک میں نافذ سماجی،معاشی،اخلاقی برائیوں، سیاسی، عدالتی، صحافتی اور انتظامی کمزوریوں اور خامیوں سے بھر پور بوسیدہ نظام اور قرضوں،بدعنوانیوں اور محتاجیوں سے لاغر معاشی صورتحال سے ملک کو آنکھ جھپکتے نکال کر ایک مثالی اور خودداروخودمختار ملک بنانے کے آسان ٹوٹکوں اور تدبیروں سے بھرپور دھواں دار تقریروں کے ذریعے ملک کے چپے چپے میں پھیلایا۔ شہرت، عزت اور نظریہ کو شاندار پزیرائی ملی اور ملک کے فرسودہ نظام کے علاج کی خاطر آخر کار 25 جولائی 2018 کو کچھ پرانی اور روایتی نرسوں کے ساتھ تبدیلی کا اسٹیتھواسکوپ گلے میں لٹکائے وزیر اعظم ہاوس کے آپریشن تھیٹر کا نظام سنبھالا۔
ڈاکٹرصاحب کو ایکسٹراحفاظتی تدابیر کے تحت 22سالہ صبر کے میٹھے پھل کے طور پر روایتی اختیارات کے ساتھ"حکومت اور ریاست دونوں ایک پیج پر" والی 'سرکشا کٹ' بھی مہیا کی گئی تاکہ کسی بھی مہلک وائرس سے محفوظ رہیں۔
اگرجنگل کی کہانی، کپتان کا 1996 سے25 جولائی 2018 تک کا سفراورگزشتہ تقریبا"تین سال کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے 100 دنوں کا پلان، قرضوں پر خودکشی کو ترجیح، کروڑوں نوکریاں، لاکھوں گھروں والے وعدےاور دعوے، کشمیر سے 35اے اور 370 دھارا کی دھجیاں اڑنے کے بعد "انڈیا جا جا کشمیر سے چلا جا" کے بیک گراونڈ میوزک میں اقوام متحدہ کی "زبانی تقریر"، چوروں اور لٹیروں کو نشان عبرت بنانے کی بجائے ملک سے ہی چمپت ہوتے دیکھنا، جیلوں میں ڈالے گئے سیاسی مخالفین کی جانب سےجیل کی بجائےبیڈروموں سے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا مذاق اڑاتے اور منہ چڑاتے بے بسی سے دیکھنا اور الزام عدالتوں پہ دھر دینا، ملک کے اہم اداروں کی سپورٹ کے عوض اپنے ہی بیانوں اور افعال سے ان بے چاروں کی عزت وتوقیر کا ہوائی جہاز بنا کر روزانہ نئی بلندیوں پر اڑانا، نیز
چائنا ہی ملا نہ وصال امریکہ
نہ ادھر کے رہے نہ ادھرکے
والی خارجہ پالیسی،او آئی سی میں شرکت سے روکنے کی ناکام کوششوں اور ہٹلرکا لقب اور مودی کا یار غدارغدار کے نعروں سے لے کر ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنے کے ارمان جتانے تک کی گلاٹیاں، اپنی ہی پارٹی میں انتشار،چوروں اور لٹیروں کی اپنے ہی بغل سے برآمدگی،ڈالر کی اونچی اڑان،مہنگائی کا طوفان، غریب کے فاقہ زدہ مکان، کسی کی بند ہوتی دکان، کاروبار سنسان،پی آئی اے کے طیاروں کی عدم ادائیگی پر بیرون ملک ضبطیاں،اسٹیٹ بینک کی آزادی اور دن بدن نااہلی کی اترائی پر92کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے اچھلتی، کودتی،سرکتی،لہراتی،بل کھاتی، کھسکتی،پھسلتی ہوئی معاشی صورتحال پر وزیروں کے پے درپےتبادلوں، تیاری کے بغیر حکومت میں نہیں آنا چاہئے، آپ نے گھبرانا نہیں ہے جیسے بیانات اور تازہ ترین اطلاعات میں ٹی ایل پی اور اسمبلی میں ناموس مبارک کے حوالے سے آئیں بائیں شائیں والی پالیسی کو غور سے دیکھا جائے تو بندر میاں کا قصہ اور وزیر اعظم کے سفرمیں ایک لفظ "اتائی" کی شدید مماثلت نظر آتی ہے۔ صرف کلائمکس میں انتر یہ ہو سکتا ہے کہ اتائی وزیراعظم اپنی ناکامیوں کا کریڈٹ کورونا وبا اور اپنے ٹیم ممبرز پر ڈال کر اپنی سنگل ایمانداری پر سب کا فوکس مبذول کراتے کراتے کھٹیا پکڑ لیں۔
جنگل میں شیر کو علاج نہ ملنے سے ہلاکت ہوئی ہوگی اور کسی اور شیر نے گدی سنبھال کر نظام چلا لیا ہوگا لیکن انسانی معاشروں میں ایک حکومت کی پانچ سال کی غلطیوں کا خمیازہ اس میں بسنے والے انسانوں کو دھائیوں تک بھگتنا پڑتا ہے سو آنے والی کئی دھائیوں تک آپ سب کواپنی اپنی لائف کا "ڈنکا چکا" مبارک ہو۔