اس واقعہ کے بعد، راقم آپکو جس سنجیدہ واقعہ کی روداد سَنانے جا رہا ہے، اگر قارئین نے اسے ایک لطیفے کے طور پڑھا تو راقم کو شدید تکلیف ہو گی. سنجیدہ یا لطیفہ واقعہ کی تفصیل درج ذیل ہے۔
یہ آزادی اظہارِ رائے اور آزاد صحافت بارے منعقدہ ایک سیمینار ہے، اس سیمینار کا انعقاد سابق وزیراعظم عمران خان کی پارٹی اور انکے سپورٹرز نے کیا ہے۔ سفید شلوار قمیض پر کالی واسکٹ میں ملبوس خان صاحب ڈائس کے سامنے براجمان ہیں اور انکی کرسی صدارت باقی تمام سامعین سے بالکل الگ اور آگے رکھی گئی ہے اور کیمرہ مین ایک خاص اینگل سے خان صاحب کو ایسے کور کر رہا ہے کہ وہ باقی تمام سامعین سے علیحدہ اور آگے نظر آئیں اور انکی ہاتھ میں پکڑی تسبیح بھی نظر آتی رہے۔ ڈائس پر لوگ آ کر خطاب کر رہے ہیں، انہی خطیبوں میں "معروف صحافی" جیسے کہ عمران ریاض، سمیع ابراہیم اور ایاز امیر بھی سیمینار کے موضوع پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے تمام سرگرم سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بطورِ خاص ان "معروف صحافیوں" کی گفتگو کے کلپس کو ٹوئیٹ اور پوسٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ یہاں ختم ہوتا ہے، راقم امید کرتا کہ قارئین اسے لطیفہ نہیں سمجھے ہوں گے۔ اس سیمینار کا مقصد یہ تھا کہ تحریکِ انصاف اور عمران خان آزادی اظہارِ رائے اور آزاد صحافت کے علمبردار ہیں، جبکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے وہ عام کارکن بھی جو خان صاحب کی سیاست اور انکے انداز حکمرانی سے اندھی محبت رکھتے ہیں، اس حقیقت کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ عمران خان آزادی اظہار اور صحافت کے سب بڑے مخالف اور کسی حد تک دشمن ہیں۔ آزادی اظہار انکی نزدیک صرف وہی ہے جو انکے یا انکی پارٹی کے متعلق ہو اور وہ اظہار اور صحافت انکے بیانیے کے مطابق ہو، اور اگر ایسا نہ ہو تو انکی سوشل میڈیا فوج گالی گلوچ کرنے سے لیکر غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے میں دیر نہیں لگاتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کی تقریباً تمام حکومتوں نے آزادی اظہار اور آزاد صحافت پر مقدور بھر قدغنیں لگائیں، مگر عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت نے اس قدغنوں کو ایک نیا عروج بخشا گیا۔ اگر صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی کی رپورٹس کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں 8 صحافیوں کو قتل کیا گیا، دو درجن سے زائد صحافیوں (یہ صرف وہ تعداد ہے جو کہ ملکی میڈیا میں رپورٹ ہوئی) کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، پاکستان کے مختلف اضلاع میں کئی درجن صحافیوں کو تحریک انصاف کے عہدیداروں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اگر ایسی فاشسٹ پارٹی آزادی اظہار اور آزاد صحافت پر سیمینار منعقد کرے تو یہ بھیڑیے کو بھیڑ کی کھال پہنانے کے مترادف ہو گا، اور ایسے کسی بھی سیمینار کی روداد کو قارئین ایک لطیفہ ہی سمجھیں گے۔
اسی سیمینار سے اپنے صدارتی خطاب میں، اپنے من چاہے مضمون پر گفتگو کرتے ہوئے، عمران خان نے 90ء دہائی کا ذکر کیا اور پی پی اور ن لیگ کی حکومتوں کی کرپشن اور باریاں لینے پر گلے کا زور خرچ کیا۔ مگر آزادی اظہار اور صحافت کے حوالے سے اپنے دور اقتدار اور 90ء کی دہائی میں صحافت کے تحفظ پر ایک لفظ بولنا گوارا نہ کیا، جبکہ دوسری طرف کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی ہی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ 90ء کی دہائی میں 3 صحافیوں کا قتل ہوا جن میں ایک روزنامہ خبریں کے فوٹو گرافر تھے جو سپاہ صحابہ کی قیادت پر عدالت میں ہوئے بم حملے میں جاں بحق ہوئے جبکہ دو دیگر صحافی پرو مہاجر قومی موومنٹ اور اینٹی مہاجر قومی موومنٹ کی آپسی لڑائی میں جاں بحق ہوئے، اب اگر خان صاحب کے دور سے 90ء کی دہائی کا آزادی صحافت سے تقابل کیا جائے تو خان صاحب کا دور آزادی اظہار رائے کے لئے ایک تاریک دور ثابت ہوا، ان حقائق کے باوجود خان صاحب اور انکی پارٹی پرلے درجے کی ڈھٹائی کے ساتھ آزادی اظہار کے موضوع پر سیمینار منعقد کرتی ہے۔
سیمینار سے آزادی اظہارِ رائے کے ڈیزائنر ڈھنڈورچیوں نے بھی خطاب فرمایا اور موضوع پر اپنے گلے کا زور خرچ کیا۔ صحافی ہونے کے دعویدار اور تحریکِ انصاف کے سرگرم میڈیائی کارکن عمران ریاض عرف ٹکر خان نے کہا کہ نیوٹرلز کی طرف سے انہیں اور انکی فیملی کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں (راقم انکی محافظت کے لئے دعاگو ہے) مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اپنی پارٹی کے ساڑھے تین سالہ دور میں جب وہ ایک وڈیرے یا ایک مافیا گینگ سرغنہ کی طرح کالی جیپوں میں مسلح گارڈز کے ساتھ نکلتے تھے تو انہیں کن نیوٹرلز سے خطرہ تھا، اور اُس وقت سیم پیج کا جو ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا وہ کیا تھا۔
دوسرے صحافی نما غلیظ وہ تھے جنہوں نے برسرِ تقری فواد چوہدری سے تھپڑ کھائے تھے. امریکی گرین کارڈ سمیع ابراہیم نے موضوع پر بات کی، انہوں نے خان صاحب کی نیوٹرلز کے ساتھ لڑائی کو جہاد قرار دیا اور وہ نظم پڑھی جو اوریا مقبول جان نامی عفریت طالبان کے لئے پڑھتا اور لکھتا ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور میں اس کی اپنی صحافت کی اوقات پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ والی تھی۔ یہ صحافی نما بدزبان بھی سیم پیج، اور عالمی لیڈر اور آفاقی حکومت بارے رطب اللسان ہوا کرتا تھا۔ خان صاحب میں چی گویرا کا پرتو دیکھنے والے ایاز امیر کی ساری انقلابی گفتگو کا لب لباب تھا کہ اس سیمینار میں انہوں نے سخت گفتگو سے پرہیز کی ہے لہذا انہیں مارا پیٹا نہ جائے اور اگر مارا بھی جائے تو کپڑے نہ پھاڑے جائیں وغیرہ وغیرہ۔
معروف صحافی رؤف کلاسرا نے ایک کالم لکھا تھا کہ وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینے کے کچھ عرصے بعد جب بطور وزیراعظم عمران خان نے چیدہ چیدہ صحافیوں کے ساتھ ملاقات کی تو انہوں نے صحافیوں سے ہاتھ ملانا تک گوارا نہ کیا اور ایسا سلوک روا رکھا جیسے وہ کسی بھی صحافی سے زندگی میں کبھی ملے ہی نہیں، حالانکہ ہم ہی صحافی تھے جو انہیں اپنے لائیو پروگراموں میں لیا کرتے تھے اور فرمائشی سوالات کیا کرتے تھے۔
اسی ملاقات میں وزیراعظم نے حکم نما درخواست کی تھی کہ چھ ماہ تک انکی حکومت بارے مثبت رپورٹنگ کی جائے اور پھر اسی طرح کا حکم پانچویں پشت کی فرضی ابلاغی جنگ کے خودساختہ ماہرین سے بھی دلوایا گیا، جو اُس وقت سیم پیج پر ہوتے تھے پی ٹی آئی کے ڈیزائنر ڈھنڈورچی اپنے ہر پروگرام میں انکے لئے دھمال ڈالتے تھے، جب کچھ صحافیوں نے ایسے کسی حکم کو ماننے سے انکار کیا تو انہیں انکے اداروں سے نکلوا کر اپنے بندے صحافی بنا کر نوکریوں پر لگوائے گئے۔
آزادی اظہارِ رائے اور آزاد صحافت بارے سیمینار منعقد کرا کے عمران خان اور انکی پارٹی چاہے جتنا آزادی صحافت کا ڈھنڈورا پیٹے مگر ماضی میں آزادی صحافت پر کئے گئے رقیق حملوں سے اپنی جان نہیں چھڑا سکتے، پاکستان کے معروف صحافیوں پر زندگی تنگ کرنے اور خواتین صحافیوں کے خلاف غلیظ اقدامات کرنے بعد اگر تحریکِ انصاف یہ سمجھتی ہے کہ ایک دو ایسے سیمینار منعقد کرا کر اور اپنے صحافی نما ڈیزائنر ڈھنڈورچیوں سے باتیں کرا کے وہ پاکستان کے آزاد میڈیا کو اپنے فسطائی مقاصد کے لئے دوبارہ استعمال کر سکتی ہے تو یہ انکی بھول ہے۔