جلسہ میں ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اس سرسبز زمین کو بچایا جائے یا پھر ان لوگوں کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق زمین کی قیمت ادا کی جائے۔ مقامی لوگوں نے حکومت سے اپنے جائز مطالبات میڈیا کے سامنے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پہلے بھی ٹیکنیکل کالج، زراعت دفتر، بجلی گھر، نہر اور سڑک کے لئے زمین دی ہے، اب ہمارے پاس صرف قبرستان اور زراعت کی زمین باقی ہے؛ اگر حکومت یہ بھی لے لے گی تو ہم کہاں جائیں گے؟
انہوں نے مطالبہ کیا کہ جامعہ چترال کے لئے کسی ایسی زمین پر عمارت تعمیر کی جائے جو غیر آباد یا بنجر ہو اور کھڑی فصلوں کو اس مقصد کے لئے تباہی سے بچایا جائے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اگر حکومت لازمی ہماری زمین لینا چاہتی ہے تو ہمیں کم از کم مارکیٹ ریٹ کے مطابق زمین کی ادائیگی کی جائے۔
یہاں کی خواتین کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کا کام ہے غیر آباد زمین کو آباد کرنا نہ کہ سیاحتی مقام کو خراب کرنا۔ ہم اس زمین میں موجود پھلوں کو خشک کر کے اسے بیچتے ہیں اور اس سے اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں جس سے وہ بھی بری طرح متاثر ہوگا۔
مقامی لوگوں نے صوبائی اور وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ انتظامیہ سے بھی اس معاملے میں ان کے ساتھ پورے پورے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس سیاحتی خوبصورت علاقے کو خراب کر کے ان کو نقل مکانی پر مجبور نہ کیا جائے۔ جلسے سے عنایت اللہ اسیر، ضیا شاہ، قاری نظام دروش، مفتی عبدالحکیم اور دیگر نے اظہار حیال کیا۔ اس جلسے میں ایک ایسا ضعیف العمر شخص بھی موجود تھے جو 1965 اور 1971 کی جنگ میں بھی شامل ہوئے اور جنگ کے دوران 1971 میں جنگی قیدی بھی بن کر ہندوستان میں قید بھی کاٹ چکے ہیں۔ ان کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ مجھے زمین دے نہ کہ مجھ سے زمین لے۔