اس کے کچھ عرصہ بعد جب میں آٹھویں جماعت میں پہنچا تو ہماری انگریزی کی کتاب میں ہاکی پر ایک سبق تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ ہاکی کا ورلڈ کپ شروع کروانے کا سہرا ہمارے ایئر مارشل نور خان کے سر تھا، جنھوں نے 26 اکتوبر 1969 کو ہاکی ورلڈ کپ کی تجویز پیش کی جسے 12 اپریل 1970 کو انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے مان لیا، جس کے تحت 1971 میں پہلی دفعہ ہاکی کا ورلڈ کپ سپین میں منعقد کروایا گیا۔ اس سبق میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی ہاکی ٹیم نے ہاکی کا یہ ورلڈ کپ چار دفعہ بالترتیب 1971، 1978، 1982 اور 1994 میں جیتا۔ اس کے ساتھ ہماری ہاکی ٹیم تین دفعہ بالترتیب 1978، 1980 اور 1994 میں ہاکی چیمپئنز ٹرافی کی فاتح ٹھہری۔ اور تین دفعہ ہی ہماری ہاکی ٹیم نے بالترتیب 1960، 1968 اور 1984 میں اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتنے کا کارنامہ سر انجام دیا۔ یہ سب پڑھ کر سر فخر سے بلند ہوا کہ ہاکی کو ہی ہمارا قومی کھیل ہونا چاہیے۔
مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ ہماری ٹیم 1994 کے بعد کوئی بھی بڑا ٹورنامنٹ نہ جیت سکی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی کارکردگی میں زوال آتا گیا؟ جس کھیل میں ہمارے پاس کلیم اللّہ، حسن سردار، اصلاح الدّین، سمیع اللّہ، اختر رسول، شہناز شیخ، شہباز سینئر اور سہیل عباس جیسے ہیرو تھے اس میں ہم زیرو ہو گئے۔ کبھی ہاکی کے کھیل میں حکومت کی عدم دلچسپی اور فیڈریشن میں سیاست کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو کبھی آسڑوٹرف کو اس کی وجہ قرار دیا گیا اور اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ اس سال بھارت میں ہونے والے ہاکی ورلڈکپ کی تیاری کے لئے کیمپ لگانے کے لئے ہاکی فیڈریشن کے پاس فنڈزہی نہیں تھے۔ پھر ایک نجی ادارے کی طرف سے کچھ چندہ دیا گیا اور کیمپ لگایا گیا اور جیسے تیسے کر کے ہماری قومی ٹیم ورلڈکپ میں شرکت کرنے کے لئے بھارت روانہ ہوئی۔ مگر وہاں جا کر کارکردگی ویسی ہی تھی جیسی ہم 1994 کے بعد سے دیکھ رہے ہیں۔ نیڈرلینڈ، جرمنی اور بیلجئیم کی ٹیموں سے بُری طرح ہارنے کے بعد ہماری ٹیم ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر ہو گئی۔
اب یہ کرکٹ تو ہے نہیں کہ جس میں اس طرح ہارنے کے بعد میڈیا پر شور ہو گا اور کوئی اقدامات کیے جائیں گے کہ جس سے بہتری کی کوئی امید پیدا ہو۔ تو بس یہی کیا گیا ہے کہ ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو اس ناقص کارکردگی کا جائزہ لے کر ایک فرسودہ سی رپورٹ پیش کر دے گی جس سے کسی کو کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا اور یہ سلسلہ اسی طرح سے چلتا رہے گا۔ ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان صاحب چونکہ خود بھی کرکٹ کے کھلاڑی رہے ہیں تو ان کو چاہیے کہ وہ کرکٹ کو ہی ہمارا قومی کھیل قرار دے دیں تاکہ نئے پاکستان کا قومی کھیل بھی نیا ہو۔ کیونکہ ہاکی اب ہمارا قومی کھیل رہنے کے قابل ہی نہیں رہا۔