اس سلسلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سپریم کورٹ منعقد ہوا، جہاں انہوں نے اپنا الوداعی خطاب کیا۔
عدالت عظمیٰ کے کمرہ نمبر ایک میں چیف جسٹس کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے ججز، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے صدر شریک ہوئے، تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چھٹی پر ہونے کے باعث اس فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہ ہوسکے۔
اس کے علاوہ اٹارنی جنرل فار پاکستان انور منصور خان بھی بیرون ملک ہونے کے باعث اس ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے اور ان کی جگہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نمائندگی کی۔
فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ انہوں نے بطور جج ہمیشہ اپنے حلف کی پاسداری کی، قانونی تقاضوں سمیت بغیر خوف اور جانبداری سے فیصلے کیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے 22 سالہ کیریئر کے دوران مختلف قانونی معاملات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جبکہ بطور چیف جسٹس 11 ماہ (مجموعی طور پر 337 دن) ذمہ داری نبھائی تاہم اگر اس میں ہفتہ وار تعطیل اور دیگر چھٹیوں کو نکال دیں تو 235 دن کام کے لیے ملے۔
انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں عدالتی شعبے میں اصلاحات کے لیے اہم اقدامات کئے، ایک جج کا دل شیر کی طرح اور اعصاب فولاد کی طرح ہونے چاہئیں۔
دوران خطاب چیف جسٹس نے کہا کہ جب میں پیدا ہوا تو میرے منہ میں ایک دانت تھا، میرے خاندان میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ بچہ بہت خوش قسمت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ وہی کیا جسے میں درست سمجھتا تھا اور اسے کرنے کے قابل تھا، میرے لیے یہ اہم نہیں کہ دوسروں کا ردعمل یا نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔
ریفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا 100 فیصد دیا، ڈیوٹی کی پاداش سے باہر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی، کبھی آواز نہیں اٹھائی بلکہ اپنے قلم کے ذریعے بات کی اور کبھی بھی فیصلے کو غیرموزوں طور پر موخر نہیں کیا اور اپنی زندگی کے بہترین برسوں کو عوامی خدمت میں وقف کرنے کے بعد آج میرا ضمیر مطمئن ہے۔
چیف جسٹس نے دوران خطاب فہمیدہ ریاض کی نظم 'فیض کہتے' بھی پڑھی۔
فل کورٹ ریفرنس میں خطاب سے پہلے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے صحافیوں سے ملاقات میں مشرف کے خلاف فیصلے کی حمایت کے حوالے سے اپنے اوپر لگنے والے الزام کی وضاحت کی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ابھی الزام لگایا گیا کہ میں نے صحافیوں سے ملاقات کر کے پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی حمایت کی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میرے اور پوری عدلیہ کے خلاف ایک گھناؤنی مہم شروع کر دی گئی ہے لیکن سچ سامنے آئے گا اور سچ کا بول بالا ہو گا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ آج اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے۔
آصف سعید کھوسہ بطور 26ویں چیف جسٹس
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 18 جنوری 2019 کو 26ویں چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔ انہوں نے اپنے تقریباً ساڑھے 21 سال کے سفر میں اب تک تقریباً 57 ہزار کے قریب کیسز کا فیصلہ دیا۔
جب آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس پاکستان بنے تو انہوں نے 'ازخود نوٹس' کا استعمال کم کرنے کا اعلان کیا اور وہ اس پر کاربند رہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کو کم سے کم استعمال کرنے کے اعلان پر جہاں ایک جانب وکلا اور سینئر قانون دان سب ہی حیران تھے وہیں ان کے اس اعلان کو کچھ وکلا کی جانب سے کافی سراہا بھی گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اپنی اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس تک آصف سعید کھوسہ نے ایک بھی ازخود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کیا۔