انقلاب ایسے ہی نہیں لائے جاتے: صرف فلسفوں پر بحثوں کی بجائے عملی جدوجہد کامیابی کی کنجی ہے

07:51 AM, 20 Dec, 2020

ارشد سلہری
مارکسزم انقلاب کی پہلی جامع نظریاتی دستاویز ہے۔ جس کا عملی اظہار روس میں ولادیمیرلینن کی قیادت میں ہوا۔ لینن ازم کارل مارکس کے فلسفہ انقلاب کی عملی تعبیر ہے۔ چی گویرا انقلاب کے لافانی ہیرو ہیں۔ دنیا میں آج بھی سب سے زیادہ پرنٹ ہونے والی تصویر چی گویرا کی ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ چی گویرا کی انقلابی جدوجہد  قبولیت کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ دوسرا نام بھگت سنگھ شہید کا ہےجو جنگ آزادی کا ہیرو ہے۔ انقلاب عہد کا ہوتا ہے۔ عہد کی سیاسی و سماجی صورتحال انقلاب کو مہمیزدیتی ہے۔ انقلاب روس، چی گویرا اور بھگت سنگھ شہید کا عہد الگ الگ اور سیاسی و سماجی حالات مختلف تھے۔
عہد جدید کے اپنے تقاضے ہیں۔ سیاسی وسماجی حالات تغیرپذیر ہیں۔ پیداواری رشتے بدل چکے ہیں۔ سماجی رسم و رواج میں ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے۔ خاندانی نظام بکھر گیا ہے۔ انسانی رشتوں میں تقدس عمومی نوعیت اختیار کر گیا ہے۔ الغرض بھونچال سی کیفیت کا سامنا ہے۔  
انقلاب محض اقتدار پر شب خون مارنا ہرگز نہیں ہے۔ انقلاب کا حقیقی مفہوم زندگی کے لئے بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل ہے۔جس کے تحت ہر انسان زندگی کے میسر لمحات سے کماحقہ لطف اندوز ہو سکے۔
اگر سرزمین پاکستان میں انقلاب کی جدوجہد کا جائزہ لیں تو کئی تحریکوں نے جنم لیا جنہیں انقلابی ابھا رکا نام دیا گیا۔انقلابی گروپ اور پارٹیاں بھی بنیں اور جدوجہد کی جاتی رہی ہےاور آج بھی کئی گروپ اور جماعتیں انقلاب کی خواہش لیے مصروف جدوجہد ہیں۔مگر حقیقی انقلابی پارٹی اور انقلابی قیادت کی تعمیر نہیں ہو پائی ہے۔ محض انقلابی تبلیغ اور انقلابی دانش پر بات ہوتی رہی ہے اور کی جارہی ہے۔
جمہوری رویے، سیکولرازم ،لبرل ازم ، ترقی پسندی ،مساوات، برابری، انسانی حقوق، شخصی آزدیاں، انسانی اخلاقیات، جنسی و صنفی حقوق سمیت بنیادی انسانی ضروریات اور سہولیات کےلئے جدوجہد کےلئے کئی فورم موجود ہیں۔  مگر ان میں زیادہ اثرات بین الاقوامی غیرسرکاری و غیر سیاسی تنظیموں(این جی اوز) کے ہیں۔جو آگاہی تو دیتی ہیں مگر اجتماعتی طورپرحقوق کی بازیابی کےلئےسیاسی راستہ اپنانے سے منع کرتی ہیں۔ا جتماعیت کی بجائے انفرادی اور مصنوعی لیڈرشپ کا تصور زیادہ ہے۔ جس میں چند لوگوں کو فائدہ ضرور ہوتا ہے اور مالی طور پر مستحکم بھی ہوجاتے ہیں اور لگژری لائف سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

پاک سرزمین میں این جی او ٹیک انقلاب کی طرف زیادہ توجہ مرکوز ہے۔ پرتعیش لائف کےلئے این جی اوز کا ساتھ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ پروگریسو،انقلابی تنظیم یا سیاسی پارٹی کا حجم اور ورکنگ سٹائل کی ترتیب ایسے رکھی جاتی ہے کہ بیک وقت این جی او اور سیاسی ،انقلابی کام بھی سرانجام دیا جاتا رہے ۔ 1968کے بعد سےیہی پریکٹس جاری ہے۔ جس سے انقلاب کا نام مشکوک ہوکر رہ گیا ہے۔
انقلاب کےلئے اساسی نظریہ اور انقلابی پارٹی ضروری ہے۔ کل وقتی لیڈر شپ(ٹیم لیڈر) اور کیڈر جو مسلسل مصرو ف جدوجہد رہیں۔ کل وقتی کام کرنے والوں کو ضرورت کے مطابق اعزازیہ دیاجائے۔ نظریہ ، فلسفہ کی بجائے پارٹی کے پھیلاؤ پرسوفیصد توجہ دی جائے۔ ممبرسازی اور تنظیم سازی کی جائے۔ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے ریاستی ڈھانچوں کی طرح تشکیل دیئے جائیں۔ پارٹی کی منصوبہ بندی،پروگرام اور دستاویزات کو صرف سنٹرل کمان تک محدود رکھا جائے۔ کوئی بھی پہلو پبلک نہیں ہونا چاہیئے۔ حتیٰ کہ پارٹی کے عمومی ممبران سے بھی احتیاط سے کام لیا جائے۔ جب تک پارٹی کی تعمیر مکمل نہ ہوجائے عوامی تحریک شروع کرنے سے گریز کیا جائے۔
عمومی سیاسی جدوجہد اور عام سیاسی پارٹیوں کے برعکس انقلاب کی جدوجہد بہت جاں گسل ہے کیوں کہ یہ ایک طبقاتی جنگ ہوتی ہےجو بالاست طبقہ کے خلاف لڑی جاتی ہے۔جنگ میں نظم ،تنظیم اورحکمت عملی کارگر ثابت ہوتی ہے۔مورچے ننگے نہیں چھوڑے جاتے ہیں۔بصورت دیگر جنگ جیتنے کا خواب شرمندہ  تعبیرنہیں ہوسکتا ہے اور انقلاب پھر رد انقلاب کی شکل اختیار کر جاتا ہے
مزیدخبریں