'بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست خیبر پختونخوا کے عوام کی سیاسی سوچ کی عکاس'

06:12 PM, 20 Dec, 2021

نیا دور
مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی اصل پوزیشن خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں سامنے آ چکی ہے۔ صوبے کے عوام کی سیاسی سوچ کیا ہے، لوکل باڈی الیکشن کا یہ پہلا مرحلہ اس کا عکاس ہے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آر ٹی ایس نہ ہوتا تو 2018ء کے انتخابات میں بھی یہی نتائج آتے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ٹھیک کہتے تھے کہ ان کا ووٹ چرایا گیا تھا کیونکہ حالیہ بلدیاتی انتخابات ان کی بات کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔

پروگرام میں شریک گفتگو رفعت اللہ اورکزئی کا کہنا تھا کہ غیر حتمی نتائج کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) بلدیاتی انتخابات میں جیت چکی ہے۔ تقریباً 20 تحصیلوں میں ان کے ناظم منتخب ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی 15 کے ساتھ دوسرے، آزاد امیدوار 11 کے ساتھ تیسرے جبکہ اے این پی 8 کیساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔

ضیغم خان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 2019ء میں ہونا تھا کیونکہ سابق حکومت کی مدت اسی سال اگست میں ختم ہوئی تھی۔ آئین کے مطابق 120 دن میں الیکشن کا انعقاد ضروری تھا لیکن ذمہ داری سے بچنے کیلئے کورونا کا بہانہ بنا کر یہ الیکشن ملتوی کئے گئے۔ تاہم اسی دوران کشمیر، گلگت بلتستان سمیت ضمنی انتخابات کا انعقاد بھی کروایا جاتا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ شاید اس وقت یہ الیکشن کروا دیتے تو صورتحال اتنی بری نہ ہوتی۔ یہ واضح تھا کہ اتنی زیادہ معاشی تکلیف اٹھانے والی حکومت کو عوام ضرور اس کی سزا دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بین الاقوامی معاشی بحران آیا۔ سابق صدر پرویز مشرف بھی ملک میں مہنگائی کی شرح 20 فیصد پر چھوڑ کر گئے تھے۔ اس کے بعد دو بدترین سیلابوں کا سامنا کبھی کرنا پڑا لیکن جہاں سے انہوں نے شروع کیا تھا، اس سے بہتر پر اس کا اختتام کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2013ء میں پی ٹی آئی کا اقتدار میں آنا ایک تاریخی واقعہ ہے۔ میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت کے تحت خود سے انھیں اقتدار دیدیا تھا کیونکہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں لکھا تھا کہ جس جماعت کی زیادہ سیٹیں ہونگی، اسے حکومت بنانے کا موقع دیا جائے گا۔ چاہے اس کی سادہ اکثریت نہ بھی ہو۔

ضیغم خان نے کہا کہ یہی معاملہ پی ٹی آئی کا تھا کہ وہ سب سے بڑی جماعت ضرور تھی لیکن اس کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ اس وقت مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ (ن) سے جھگڑتے رہے کہ آئیں مل کر اتحادی حکومت بناتے ہیں لیکن میاں نواز شریف نہ مانے اور پی ٹی آئی کو حکومت بنانے دی، حالانکہ عمران خان تو میثاق جمہوریت میں شامل ہی نہیں تھے، وہ تو اس چارٹر آف ڈیموکریسی کو مُک مُکا کہتے تھے لیکن اسی کے وہ سب سے بڑے بینیفشری بن گئے۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اپنے صوبے میں سیاسی قوت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں ان کی جماعت نے پی ٹی آئی کا قلعہ فتح کر لیا ہے۔ حالانکہ حکمران جماعت کی جانب سے جو دھاندلی کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی۔

رضا رومی کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے انتخابات میں یہ بات سامنے آئی کہ بڑی اہمیت کی حامل قوتیں یا تو پیچھے ہٹ گئی ہیں یا ہٹ رہی ہیں۔ حالانکہ جس طریقے سے سب کچھ طے کیا گیا تھا اس کے باوجود براہ راست مداخلت نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کوئی بھی جماعت کامیاب ہو، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں، اصل بات یہ ہے کہ اس ملک میں صاف اور شفاف الیکشن کا انعقاد ہونا چاہیے۔

پروگرام میں گذشتہ روز افغانستان کے معاملے پر منعقد ہونے والی کانفرنس کے بارے میں بات کرتے ہوئے کامران یوسف کا کہنا تھا کہ او آئی سی میں اگرچہ 57 ممالک شامل ہیں لیکن اس کا اتنا زیادہ اثر ورسوخ نہیں ہے۔

ان کا کہان تھا کہ یہ تنظیم افغانستان کے مسئلے پر ناکام رہی ہے لیکن پاکستان میں اس کا اجلاس سعودی عرب کی وجہ سے منعقد کیا گیا تھا کیونکہ اس کا مقصد افغانستان میں داخل ہونا ہے۔

 
مزیدخبریں