چند روز قبل نیو یارک میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن مر چکا ہے مگر گجرات کا 'قصائی' ابھی زندہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گجرات میں 2002 میں ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات کروانے میں مودی کا ہاتھ تھا جس کی وجہ سے ہزاروں بے گناہ لوگوں کی جان گئی۔ کچھ عرصہ قبل امریکہ کے ممتاز سیاسی مفکر فرینسس فوکویاما نے ایک سیمینار میں کہا تھا کہ انڈیا بہت تیزی سے ایک ہندو فاشسٹ ریاست بننے جا رہا ہے جس سے انڈیا میں مسلمان اپنے آپکو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔
انڈیا کے صوبے گجرات میں 2002 کے مذہبی فسادات کے وقت موجودہ وزیراعظم نریندر مودی گجرات کے وزیراعلی تھے۔ ان پر یہ فسادات کروانے اور خاص طور پر مسلمان قوم کو نشانہ بنانے کا الزام ہے۔ مودی ان واقعات کے بعد بین الاقوامی میڈیا میں بھی خاصے متنازعہ شخصیت تھے۔ ان کے وزیراعظم بننے تک ان کے اوپر امریکہ میں داخلے پر پابندی تھی۔ مودی کا ان فسادات کے الزامات کے بعد سیاسی طور پر اپنا وجود برقرار رکھنا ہی مشکل مرحلہ تھا مگر مودی ان فسادات کے بعد اور طاقت سے ابھر کر سامنے آئے۔ وہ جب انڈیا کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو دنیا کے جمہوری حلقوں میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی کہ انڈیا اب لبرل اور جمہوری راستے کو ترک کر کے انتہاپسند نیشنلزم کی طرف جا سکتا ہے۔ پچھلے ایک عشرے سے مودی اور اس کی پارٹی بی جے پی نے انڈیا کے تمام سیاسی اور سماجی حلقوں کو اپنی لپٹ میں لے رکھا ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اقلیتوں بلخصوص مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی اور مودی کی اصل طاقت ہندو انتہا پسند تنظیم آرایس ایس ہے جو انڈیا کو ہندو نیشنلسٹ ریاست بنانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا نام ونشان تک مٹا دینا چاہتی ہے۔
آر ایس ایس اور مودی کا گٹھ جوڑ اب دنیا کے لیے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ مودی کو 2014 میں وزیراعظم بنوانے کے لیے آر ایس ایس نے 2013 کے اوائل میں ہی تیاری شروع کر دی تھی۔ آر ایس ایس کے مودی کو اقتدار میں لانے کے خلاف واحد مزاحمت ایل کے ایڈوانی تھے ، ان کے پارٹی چھوڑنے کے بعد آر ایس ایس اپنے دیرینہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو گئی۔ مودی کی حکومت اور ان کے ووٹ بینک کے پیچھے آر ایس ایس کی طاقت ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مودی کے آٹھ سالہ دور حکومت میں بی جے پی اور آر ایس ایس ایک ہی نظریے میں ضم ہو چکی ہیں اور وہ ںظریہ مسلمانوں کی نسل کشی کے علاوہ انڈیا کو ہندو نیشنلسٹ ریاست بنانا ہے جس میں کسی اور مذہب یا کلچر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس انتہا پسند نظریات کے پرچار اور ترویج میں صرف آر ایس ایس نہیں ہے اور بھی کئی خطرناک انتہا پسند تنظیمیں ہیں جو اب مودی کی حکومت کی سرپرستی میں سیاسی پارٹیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔
2022 کے اوائل میں انڈیا کی ایک اور دائیں بازو کی سیاسی پارٹی مہا سبھا کی سینئیر مبمر پوجا پنڈے نے ایک تقریب کے دوران کہا تھا کہ اگر ہمارے پاس 100 جنگجو ہوں تو ہم 20 لاکھ مسلمانوں کو مارنے کی تیاری کر سکتے ہیں، اس طرح سے ہم جیت سکتے ہیں ، انڈیا کو بچا سکتے ہیں اور انڈیا کو ایک ہندو ریاست بھی بنا سکتے ہیں۔ اس انتہا پسند پیغام کے بعد پورے انڈیا کے مسلمانوں میں غم و غصے اورغیر محفوظ ہونے کی لہر دوڑ گئی مگر مودی کی حکومت کی طرف سے مجرمانہ خاموشی دیکھنے میں آئی۔ جب سے مودی کی حکومت آئی ہے، مہا سبھا کی انتہا پسند سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی مسلم دشمنی میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا کی سیاست میں نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ مسلم دشمنی اورمسلم نسل کشی کا یہ رجحان اگلے الیکشن میں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ اس انتہا پسند پارٹی کے لوگ مہاتما گاندھی کے قاتل کونہ صرف انتہائی عقیدت اور احترام سے دیکھتے ہیں بلکہ اس گروپ نے گاندھی کے قاتل کا پوجا کے لیے ایک بت بھی بنا رکھا ہے۔
مہا سبھا کی آفیشل ویب سائٹ پر اس پارٹی کا نظریہ دیا گیا ہے جس کے مطابق انڈیا صرف ہندؤں کا ملک ہے، اگر یہ پارٹی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو انڈیا سے مسلمانوں کو زبردستی اور طاقت کے زور پر پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور کر دے گی اور ایسا نظام تعلیم لیکر آئے گی جو ان کے نظریات کے مطابق ہوں گے۔ مہا سبھا مودی کے دور حکومت سے پہلے ایک درمیانے درجے کی سیاسی پارٹی تھی مگر اب وہ ایک منظم پارٹی کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اس کی تعداد اور اثر دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس پارٹی نے انڈیا کی شمال کی ریاستوں میں تبلیغ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جو مسلسل اپنے نظریات کا پرچار کر رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ان ریاستوں میں بی جے پی سب سے زیادہ سیاسی طاقت رکھتی ہے۔ اس ربط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مہا سبھا کی سرگرمیوں کو بی جے پی کی خفیہ حمایت حاصل ہے جس کو بی جے پی اپنے ہندو نیشنلسٹ ایجنڈے کی ترویج کے لیے استعمال کرتی ہے۔ نریندر مودی نے مہا سبھا کے لیڈر ویر سورکرکو اس کی وفات پر بہادری اور سماجی کاموں پراعلانیہ تعریفی کلمات سے نوازا۔
مودی اور اس کی حکومتی پارٹی بی جے پی بظاہر خود کو ان انتہا پسند پارٹیوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہےمگر ان کی اصل سیاسی طاقت یہ انتہا پسند گروپس ہیں جنکے بل بوتے پر وہ الیکشن میں فنڈز اور ووٹ لیتے ہیں۔ آر ایس ایس اور مہا سبھا کے مسلح جتھوں کو شدت پسند کاروائیوں کے لیے باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے جس سے مودی کی حکومت نے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ یہ مسلح گروہ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں مگر انڈیا کی ریاست اور اس کے ادارے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتے۔ انڈیا کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک خطرناک انتہا پسند ہندونیشنلسٹ ریاست بنایا جا رہا ہے۔ گاندھی کے نظریات کا لبرل اور سیکولر انڈیا اب ماضی کا قصہ ہو چکا ہے۔ انڈیا کا یہ نیا سٹیٹس اس کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے کیوں کہ بے شمار مذاہب اور قوموں کے دیس انڈیا میں صرف ایک ہندو نیشنلزم کا نظریہ لاگو کرنا غیر فطری دکھائی دیتا ہے۔ انڈیا پھر سے اسی راستے پر گامزن ہے جب اس کے اندر صرف مخصوص ذاتوں کے حقوق تھے جس نے ہندوستانی معاشرے کو تقسیم کر کے اس کو بیرونی طاقتوں کا غلام بنا دیا تھا۔