گیلپ پاکستان نے پچھلے ایک مہینے کے دوران پاکستان کے بڑے نیوز چینلز کے منتخب ٹاک شوز کے موضوعات اور ان میں شامل ہونے والے مہمانوں کا تجزیہ کیا ہے اور اس پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے جس کے ذریعے متعدد اہم رجحانات کا پتہ چلتا ہے۔
گیلپ پاکستان نے اس تجزیاتی مطالعے کے لیے پاکستان کے 6 بڑے نیوز چینلز کو منتخب کیا جن میں جیو، اے آر وائی، بول، دنیا، ایکسپریس اور سماء نیوز شامل ہیں۔ تجزیے کے لیے منتخب نیوز چینلز کے 10 مخصوص ٹاک شوز کا انتخاب کیا گیا جن کے نام یہ ہیں؛ اعتراض ہے، ندیم ملک لائیو، آف دی ریکارڈ، دنیا کامران خان کے ساتھ، الیونتھ آور، آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ، کیپٹل ٹاک، ایسے نہیں چلے گا، ریڈ لائن اور کل تک۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے نیوز چینلز کے ٹاک شوز میں پچھلے ایک مہینے کے دوران سیاست کا موضوع سب سے زیادہ زیر بحث آیا جس کا حصہ ان پروگراموں کی کل نشریات کا 58 فیصد بنتا ہے۔ دوسرے نمبر پر معیشت آتی ہے جسے نشریات میں سے 13 فیصد حصہ ملا۔ نشریات میں قانون کا حصہ 10 فیصد جبکہ انتخابات کا حصہ 7 فیصد رہا۔ مذکورہ شوز میں سماجی مسائل کو نشریات میں سے محض 3 فیصد حصہ ملا۔
مذکورہ ٹاک شوز کے دوران سیاست کے میدان میں جو دو موضوعات سب سے زیادہ زیر بحث آئے، ان میں پہلے نمبر پر ' عمران خان کیس' رہا جبکہ دوسرا سب سے زیادہ ڈسکس ہونے والا موضوع پاکستان کا 'عدالتی نظام' رہا۔
گیلپ پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک مہینے میں بڑے نیوز چینلز کے ٹاک شوز میں جس سیاسی جماعت سے متعلق سب سے زیادہ بات ہوئی وہ پاکستان مسلم لیگ ن ہے اور مذکورہ چینلز کے ٹاک شوز کی کل نشریات میں سے 30 فیصد ن لیگ سے متعلق تھی جبکہ دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی رہی جس سے متعلق 29 فیصد بحث ہوئی۔ اس فہرست میں پاکستان تحریک انصاف کا تیسرا نمبر ہے جسے نشریات کا 14 فیصد حصہ ملا۔ باپ یعنی بلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ 9 فیصد جبکہ جمعیت علماء اسلام کے نام 4 فیصد نشریات رہی۔
ان 6 بڑے نیوز چینلز کے 10 اہم ترین ٹاک شوز میں بلائے جانے والے مہمانوں کا بھی تجزیہ کیا گیا اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان شوز کے دوران 403 مہمانوں کو بار بار بلایا جاتا رہا جبکہ ان شوز کے دوران جو نئے مہمان مدعو کیے گئے ان کی تعداد 207 تھی۔ جن ٹاک شوز نے سب سے زیادہ نئے مہمانوں کو شریک کیا ان میں 'دنیا کامران خان کے ساتھ' اور 'ایسے نہیں چلے گا' سب سے آگے ہیں۔ ان دونوں شوز نے 55، 55 نئے مہمانوں کو شو میں شامل کیا۔ جن ٹاک شوز نے زیادہ مہمانوں کو بار بار پروگرام میں شامل کیا ان میں 'ایسے نہیں چلے گا' 67 مہمانوں کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ دوسرے نمبر پر 'دنیا کامران خان کے ساتھ' ہے جنہوں نے 61 مہمانوں کو تواتر کے ساتھ مدعو کیا۔
ان تمام شوز کے سب سے زیادہ پروگراموں میں شرکت کرنے کا موقع پاکستان تحریک انصاف کے وکیل محمد شعیب شاہین اور اطہر کاظمی کو دیا گیا جو مجموعی طور پر 3، 3 فیصد پروگراموں میں موجود رہے۔ ان کے بعد فیصل واؤڈا، پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی، قمر زمان کائرہ اور بول ٹی وی کے تجزیہ کار عامر ضیاء آتے ہیں جن کا حصہ 2، 2 فیصد رہا۔
مختلف چینلز پر سیاسی جماعتوں کی نمائندگی سے متعلق اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو جیو نیوز پر سب سے زیادہ یعنی 61 فیصد جگہ دی گئی۔ جیو نیوز کے ٹاک شوز 'کیپٹل ٹاک' اور 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں ن لیگ چھائی رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو دنیا نیوز پر سب سے زیادہ جگہ ملی اور دنیا نیوز کی مجموعی نشریات میں سے پیپلز پارٹی کا حصہ 50 فیصد رہا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی سب سے زیادہ دنیا نیوز پر ہی 33 فیصد جگہ ملی۔ دنیا نیوز کے پروگرام 'دنیا کامران خان کے ساتھ' میں پاکستان تحریک انصاف کو زیادہ کوریج ملی۔
تجزیاتی مطالعے میں یہ رجحان بھی دیکھنے کو ملا کہ اے آر وائی نیوز نے سب سے زیادہ کوریج پی ٹی آئی کے بجائے پاکستان پیپلز پارٹی کو دی جبکہ پی ٹی آئی کی کوریج دوسرے نمبر پر رہی۔ اے آر وائی نیوز پر پی ٹی آئی کی کوریج نشریات کا 27 فیصد رہی۔
پاکستان مسلم لیگ ن کو جیو نیوز نے سب سے زیادہ یعنی 61 فیصد نشریات کا موضوع بنایا، ایکسپریس نیوز نے 40 فیصد، سماء نے 38 فیصد، بول نیوز نے 18 فیصد اور اے آر وائی نے 11 فیصد نشریات ن لیگ سے متعلق ترتیب دی۔ اس ضمن میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دنیا نیوز نے پورے مہینے کے دوران مذکورہ ٹاک شوز میں مسلم لیگ ن کو صفر کوریج دی۔ جبکہ ادھر جیو نیوز نے پورے مہینے کے دوران پی ٹی آئی کو صفر کوریج مہیا کی۔
اگر یہ دیکھا جائے کہ ان 6 نیوز چینلز پر بڑی سیاسی جماعتوں کو فیصد کے حساب سے مجموعی طور پر کتنی کوریج ملی تو پیپلز پارٹی اس ضمن میں پہلے نمبر پر نظر آتی ہے جس کا مجموعی سکور 182 ہے جبکہ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ ن آتی ہے جسے ملنے والی کوریج کے کل پوائنٹ 168 بنتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر پی ٹی آئی رہی جس کی کوریج کا مجموعی سکور 99 پوائنٹ ہے۔