استعفے میں انہوں نے کہا کہ کراچی بار ایسوسی ایشن، سندھ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ ایسوسی بار ایسوسی ایشن کے تاحیات رکن کی حیثیت اور اس سے قبل ایڈوکیٹ جنرل سندھ، اٹارنی جنرل فار پاکستان اور سندھ ہائی کورٹ کےجج کے عہدے پر خدمات انجام دینے کی حیثیت سے میں بار میں اپنے بھائیوں اور ساتھیوں کے ساتھ کھڑا ہوں اور پاکستان بار کونسل کے اتحاد اور پیشہ ورانہ مہارت کے اصولوں پر اپنے یقین کی تصدیق چاہتا ہوں جس کے لیے پاکستان بار کونسل ہمیشہ کھڑا ہوا۔
اپنے استعفے کے آخر میں انہوں نے کہا کہ میں اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے سے اپنا استعفیٰ دیتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ اسی فوری طور پر قبول کیا جائے۔
یہ بات مدِ نظر رہے کہ انور منصور خان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کی درخواستوں میں حکومت کی پیروی کر رہے تھے۔ گذشتہ روز پاکستان بار کونسل کے نائب صدرعابد ساقی نے ایک بیان میں اٹارنی جنرل سے غیر مشروط تحریری معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے غیرمعمولی طرزعمل پر استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان بار کونسل عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو نقصان پہنچانے کے کسی بھی حکومتی زیراثر عمل کو برداشت نہیں کرے گی۔
پی بی سی نے کہا تھا کہ اٹارنی جنرل کا عدالت عظمیٰ میں غیرمعمولی رویہ پریشان کن ہے لہٰذا ان کے اور وزیر قانون کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جائے گی۔ تاہم بعد ازاں توہین عدالت کی درخواست کا مسودہ تیار کیا گیا تھا لیکن اسے وقت پر دائر نہیں کیا جاسکا۔