صحافتی تنظیموں، وکلا برادری اور سول سوسائٹی اداروں نے حالیہ نافذ کردہ سوشل میڈیا رولز کو نامنظور قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان ضوابط کو مکمل طور پر واپس لے اور مستقبل میں سوشل میڈیا ریگولیشن کیلئے عوامی مشاورت کے عمل کا ٹھوس پلان جاری کرے۔
یہ مطالبات پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جی) کی زیر صدارت نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے تعاون سے منعقد کی گئی ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران پیش کیے گئے۔ پریس کانفرنس میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، اور اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے نمائندوں سمیت سینئر صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان نے خطاب کیا۔
پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پی ایف یو جے نے ساتھی تنظیموں کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا رولز کے خلاف ملک گیر احتجاج کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنسیں کی جائیں گی، اور جمعرات 27 فروری کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک قومی کانفرنس منعقد کر کے سوشل میڈیا رولز کے حوالے سے اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔
مقررین نے کہا کہ سوشل میڈیا رولز سے آزادی اظہار رائے، میڈیا کی خودمختاری اور قومی ڈیجیٹل معیشت کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ رولز سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا پر شہریوں کے اظہار رائے کے حق کو سلب کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔
ناصر زیدی نے کہا کہ یہ سوشل میڈیا رولز پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر حملوں کے سلسلے کی آخری کڑی ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری حارث خلیق نے کہا کہ یہ ضوابط پاکستانی شہریوں کے سیاسی، معاشی، اور ثقافتی حقوق کو بھی پامال کریں گے۔
سینئر صحافی ایم ضیاالدین نے کہا کہ ان ضوابط سے حکمران جماعت خود متاثر ہوگی۔ سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ سوشل میڈیا رولز ظلم کا وہ ضابطہ ہے جن کی مذمت ضروری ہے۔
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی شریک بانی صدف خان نے کہا کہ ضوابط کے تحت تجویز کردہ نیشنل کوارڈینیٹر کا عہدہ سائبر کرائم قانون کے تابع ہونے کی بجائے قانون کی حدود سے تجاوز کرتا ہے۔ شرکا نے وزیراعظم کی جانب سے رولز پر سٹیک ہولڈر مشاورت کے بیان کو سراہا لیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ حکومت فوری طور پر تحریری حکم نامے کے ذریعے ان رولز کو منسوخ کرے۔
انھوں نے مزید کہا کہ صرف زبانی ہدایت سے ضوابط پرعمل درآمد روکنا کافی نہیں ہے۔ حکومت نے مشاورت کے عمل کے حوالے سے کوئی ٹھوس پلان عوام کے ساتھ شیئر نہیں کیا جو کہ تشویش کا باعث ہے۔