ابتدائی اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر رشید کو اتوار کی شام 5 بجے کے قریب اس وقت گولیاں مارکر قتل کر دیا گیا جب وہ اپنے کلینک میں مریضوں کا معائنہ کر رہے تھے۔ ڈاکٹر رشید احمد کے مبینہ قاتل حافظ انعام کی لاش بھی جائے وقوعہ سے کچھ دور کھیتوں سے ملی جس نے پر اسرار طور پر ڈاکٹر رشید احمد کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کر لی۔
حافظ انعام کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ احمدیوں سے عداوت رکھتا تھا ۔اطلاعات ہیں کہ مقامی پولیس نے قاتل کے ایک ساتھی کو گرفتار کر لیا ہے۔
ڈاکٹر رشید احمد کے مبینہ قاتل حافظ انعام کی لاش بھی جائے وقوعہ سے کچھ دور کھیتوں میں ملنے کی خبر ہے۔
ڈاکٹر رشید احمد صاحب ایک شریف النفس شہری تھے ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ وہ ناروے کے نیشنلٹی ہولڈر تھے۔ ان کے اہل خانہ بیرون ملک مقیم ہیں۔ مقتول ڈاکٹر نے اہل علاقہ کی خدمت کے لئے اپنے گھر میں فری ہومیو ڈسپنسری کھول رکھی تھی۔
بے گناہ احمدیوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ احمدیوں کے خلاف جاری نفرت انگیز مہم کو فوری طور پر روکا جائے اور ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
گزشتہ دنوں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی جانب سے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ ایچ آر سی پی کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن نے گوجرانوالہ اور آس پاس کے علاقوں میں احمدیہ کمیونٹی کے ارکان کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافے کی نشاندہی کی ہے۔ خاص طور پر، ان کی قبروں کی بے حرمتی، احمدیوں کے عبادت گاہوں کے میناروں کی تباہی، عید کے موقع پر جانوروں کی قربانی کی رسم ادا کرنے پر کمیونٹی کے افراد کے خلاف متعدد موقعوں پر ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔
مشن کی رپورٹ کے مطابق ایسے شوہد ملے ہیں جس سے علم ہوا کہ ایک مقامی سیاسی مذہبی تنظیم کے ارکان کے اعتراضات کے بعدگوجرانوالہ اور وزیر آباد میں سول انتظامیہ دسمبر 2022 اور جنوری 2023 میں احمدیوں کی عبادت گاہوں پر میناروں کو تباہ کرنے میں براہ راست ملوث تھی۔ اگرچہ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے تشدد کے خطرے کو روکنے کے لیے ایسا کیا ہےلیکن جس طرح سے اس معاملے کو سنبھالا گیا اس سے احمدیہ کمیونٹی کے خلاف بڑھتی ہوئی دشمنی میں اضافہ ہوا ہے اور علاقے میں احمدی باشندوں کے خطرے میں اضافہ ہوا ہے۔
https://twitter.com/RajaAMGoher/status/1627397172210565123?s=20
خاص طور پر تشویش کی بات یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ کا خیال ہے کہ کچھ قانونی اور آئینی دفعات اس قسم کے ظلم و ستم کی گنجائش فراہم کرتی ہیں، تاہم آئین کے آرٹیکل 20(b) کے تحت ایسا نہیں ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 'جبکہ مشن یہ سمجھتا ہے کہ مقامی بیوروکریسی، پولیس اور عدلیہ کو ایک مذہبی گروہ نے کامیابی کے ساتھ ڈرایا تھا، لیکن ان کا ردعمل احمدیہ کمیونٹی کے بنیادی حقوق کا احترام کرتے ہوئے امن و امان کا انتظام کرنے میں شدید ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔'
مشن نے سفارش کی ہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس تصدق حسین جیلانی اور سید منصور علی شاہ کے 2014 اور 2021 کے فیصلوں پر مکمل عمل درآمد کیا جائے جس میں مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے خصوصی پولیس فورس کا قیام بھی شامل ہے۔ مزید برآں، ایسے حالات میں عوامی تشدد کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پولیس کی صلاحیت کو مناسب انفراسٹرکچر اور تربیت کے ذریعے بڑھایا جانا چاہیے۔