اسی دوران انگریز سرکار نے ہندوستان کے پہلے سے آباد علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ نئے اور نسبتاً غیر آباد علاقوں کا رخ کریں، وہاں جا کر زمینیں آباد کریں اور کاروبار شروع کریں۔ اسی بندوبست کے تحت مشرقی پنجاب کے علاقوں روہتک اور حصار سے بھی کئی خاندان نقل مکانی کرکے لائلپور میں آ کر آباد ہوئے۔ انہی میں سے ایک خاندان خادم محی الدین کا بھی تھا۔ یہ ایک تعلیم یافتہ اور سلجھا ہوا خاندان تھا اور خاندان کے بڑے یعنی خادم محی الدین کے والد فیروز پور قصبے میں فارسی کے استاد اور سکول ہیڈ ماسٹر رہ چکے تھے۔ بڑے میاں عمر کے آخری حصے میں اعزازی میجسٹریٹ بھی تعینات ہوئے تھے۔ انہیں ادب سے لگاؤ تھا اور پورے قصبے میں ان کی دیانت داری کا شہرہ تھا۔ لائلپور آ کر خادم محی الدین بھی والد کی مانند تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ وہ موسیقی اور سٹیج کے پرستار تھے اور آگے چل کر انہوں نے موسیقی اور ڈرامے کے موضوع پر چند کتابیں بھی تصنیف کیں۔ پاکستان کی پہلی فلم 'تیری یاد' کے مکالمے لکھنے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔
20 جون 1931 کو پانچ بیٹیوں کے بعد خادم محی الدین کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام ضیاء رکھا گیا۔ ضیاء نے سنٹرل ماڈل سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ایک مرتبہ سکول میں والد کے لکھے ہوئے ڈرامے میں طالب علم کا کردار بھی نہایت اعتماد سے ادا کیا۔ ان کے دادا اعلیٰ ادب کے رسیا تھے اور ادب کا یہ ذوق بذریعہ والد ان تک بھی منتقل ہوا۔ ادب کے علاوہ کلاسیکی موسیقی اور ڈرامے کی شدھ بدھ انہیں والد سے حاصل ہوئی۔ سکول کے بعد انہوں نے لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا اور 1949 میں گریجویشن کا امتحان پاس کیا۔ گریجویشن کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے اور یوں اس سٹیج کی داغ بیل پڑنا شروع ہوئی جس پر آنے والے سالوں میں شان دار اداکار، لاجواب ڈائریکٹر، باکمال کمپیئر اور دنیائے اردو کے سب سے بڑے صداکار نے جلوہ افروز ہونا تھا۔
ریڈیو پاکستان سے شروعات
ریڈیو پاکستان میں ضیاء محی الدین کو پطرس بخاری، رفیع پیر، ذوالفقار علی بخاری، رشید احمد اور شوکت تھانوی جیسی شخصیات کی صحبت ملی۔ 1951 میں کولمبو پلان کے تحت آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن میں انہیں تربیت کے لئے منتخب کیا گیا اور وہ آسٹریلیا روانہ ہو گئے۔ اس تربیت کے دوران انہوں نے سٹیج اور اداکاری کے شعبوں میں بھی دلچسپی لینی شروع کر دی اور اسی دوران انہیں احساس ہوا کہ ان کی منزل ریڈیو نہیں بلکہ سٹیج ہے۔ انہوں نے وہیں سے ریڈیو پاکستان کی ملازمت سے استعفیٰ لکھا اور زیڈ اے بخاری کو ارسال کر دیا۔ بخاری صاحب کو جب ضیاء محی الدین کے ارادوں کا علم ہوا کہ وہ برطانیہ جا کر اداکاری سیکھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کمال شفقت سے ان کی حوصلہ افزائی کی اور برطانیہ میں کچھ لوگوں سے ملنے کی تلقین کے ساتھ ان کا استعفیٰ قبول کر لیا۔
اسی دوران ضیاء محی الدین نے چند کہانیاں اور افسانے بھی لکھے جو لاہور کے مختلف رسالوں میں شائع ہوئے۔ یہ کہانیاں چھپ تو گئیں مگر ضیاء محی الدین جیسا کاملیت پسند انسان ان سے چنداں مطمئن نہیں تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی کہانیوں سے دستبرداری اختیار کر لی۔
لندن پہنچ کر جب ضیاء محی الدین نے شیکسپیئر کو پڑھا تو ان کے سامنے منظرناموں، کرداروں، مکالموں اور معانی کا ایک ایسا جہان کھلتا چلا گیا کہ وہ شیکسپیئر پر فریفتہ ہو گئے۔
دی رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ
ضیاء محی الدین 1953 سے 1956 تک لندن میں قائم دی رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ میں زیرتعلیم رہے۔ یہاں انہوں نے صداکاری، اداکاری اور ہدایت کاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ اس کے بعد وہ مختلف سٹیج ڈراموں کا حصہ بنے۔
1956 میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ضیاء محی الدین کچھ عرصے کے لئے پاکستان آئے۔ یہاں انہوں نے چند ڈرامے سٹیج پر پیش کیے۔ 1957 میں کراچی کے تھیوسوفیکل ہال میں انہوں نے رومیو اینڈ جولیٹ پیش کیا۔ اس میں انہوں نے وحید نامی ایک نوجوان کو متعارف کروایا اور اس کے لب و لہجے پر کام کیا۔ یہ وحید آگے چل کر پاکستان میں چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے نام سے ہردلعزیز اداکار بن گیا۔ اس عرصے کے دوان انہوں نے لاہور کے سٹیج سے بھی شیکسپیئر کے ڈرامے پیش کیے جنہیں خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔
ویسٹ اینڈ تھئیٹر
1957 میں ایک مرتبہ پھر سکالرشپ پر وہ برطانیہ چلے گئے اور ہدایت کاری کی تربیت حاصل کرنے لگے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انہیں برطانوی ٹھئیٹر اور فلم سے وابستہ معروف ہدایت کاروں اور اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع میسر آیا۔
1960 میں برطانیہ کے ویسٹ اینڈ تھئیٹر کی جانب سے معروف برطانوی مصنف ای ایم فورسٹر کے 1924 میں لکھے ناول A Passage to India کو جب سٹیج پر پیش کرنے کا منصوبہ بنا تو ضیاء محی الدین کو اس میں ڈاکٹر عزیز کے کردار کے لئے منتخب کیا گیا۔ یہ 1960 کا سال تھا اور ویسٹ اینڈ تھئیٹر کے سٹیج پر یہ ان کی پہلی پرفارمنس تھی۔ یہ سٹیج پلے سپرہٹ ثابت ہوا اور کئی مہینوں تک پیش کیا جاتا رہا۔
ٹھئیٹر کے لئے جن کھیلوں میں حصہ لیا
برطانیہ میں قیام کے دوران ضیاء محی الدین نے تھئیٹر کے لئے کئی کھیلوں میں حصہ لیا۔ ان میں دی ایڈونچر آف سر فرانسز ڈریک (1962)، ڈینجرمین (66-1964)، دی ایوینجر (1966)، ایڈم ایڈمنٹ لیوز (1967)، جیک نوری (1967)، مین اِن اے سوٹ کیس (1968)، دی چیمپئنز (1969)، ہیڈلی (1969)، ڈی ٹیکٹیو (1969)، گینگسٹرز (1978)، زیڈ کارز (1978)، مائنڈر (1980)، ڈیتھ آف اے پرنسس (1980)، دی جیول ان دی کراؤن (1984)، برجیرک (1984) اور فیملی پرائڈ (92-1991) شامل ہیں۔
ہالی ووڈ فلمیں
ضیاء محی الدین وہ پہلے پاکستانی اداکار تھے جنہوں نے ہالی ووڈ فلموں میں اداکاری کی۔ پہلی ہالی ووڈ فلم جس میں انہیں کام کرنے کا موقع ملا وہ ڈائریکٹر ڈیوڈ لین کی 1962 میں ریلیز ہونے والی شہرہ آفاق فلم Lawrence of Arabia تھی۔ ضیاء محی الدین نے اس میں ایک عرب گائیڈ کا کردار ادا کیا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے سیمی گوئنگ ساؤتھ (1963)، بی ہولڈ اے پیل ہارس (1966)، خرطوم (1966)، ڈیڈلیئر دین دی میل (1966)، دی سیلر فرام جبرالٹر (1967)، دے کیم فرام بی یانڈ سپیس (1967)، ورک از اے فورلیٹر ورڈ (1968)، بمبے ٹاکی (1970)، آشنتی (1979)، دی آسام گارڈن (1985)، پارٹیشن (1987) اور امیکولیٹ کونسیپشن (1992) جیسی فلموں میں اداکاری کی۔
برطانوی ٹیلی ویژن
1965 میں بی بی سی نے جب ای ایم فورسٹر کے ناول پر ٹیلی ویژن فلم بنائی تو یہاں بھی ڈاکٹر عزیز کا کردار ضیاء محی الدین ہی نے ادا کیا۔ برطانیہ میں قیام کے دوران وہ درجنوں ٹیلی ویژن سیریز، ڈراموں اور پروگراموں کا حصہ بنے۔ ان کا ایک یادگار ورائٹی شو Here and Now تھا جو برطانیہ کے سنٹرل ٹیلی ویژن چینل سے 1986 میں شروع ہوا اور 1989 تک پیش کیا جاتا رہا۔ ضیاء محی الدین نہ صرف اس کے کمپیئر تھے بلکہ یہ شو پروڈیوس بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے خدمات
ضیاء محی الدین نے بطور میزبان، اداکار اور صداکار پی ٹی وی کی نشریات کو دہائیوں تک منور کیے رکھا۔ ضیاء محی الدین نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے جو پروگرام پیش کیے ان کی تفصیل ملاحظہ ہو۔
ضیاء محی الدین شو
ضیاء محی الدین نے 1971 میں پاکستان ٹیلی ویژن کو ایک سٹیج پروگرام کا آئیڈیا پیش کیا اور پروگرام کا نام ضیاء محی الدین شو رکھا گیا۔ ضیاء محی الدین کی میزبانی میں اس سلسلے کا پہلا پروگرام جنوری 1971 میں نشر ہوا۔ پہلے راؤنڈ میں یہ کراچی ٹیلی ویژن سینٹر سے پیش کیا گیا جس میں کل 15 پروگرام پیش کیے گئے جنہیں مختلف ادیبوں نے تحریر کیا جبکہ 1973 میں اس کا دوسرا راؤنڈ لاہور ٹیلی ویژن مرکز سے پیش کیا گیا۔
پاکستان ٹیلی ویژن سے پیش کیا جانے والا یہ پہلا سٹیج پروگرام تھا جو رجحان ساز حیثیت اختیار کر گیا۔ ضیاء محی الدین شو میں اس دور کی بڑی بڑی شخصیات نے شرکت کی۔ اس سے قبل یہ انداز مروج تھا کہ پروگرام میں ایک میزبان ہے اور ایک مہمان اسے انٹرویو دے رہا ہے۔ یہ محض دو لوگوں کی گفتگو ہوتی تھی۔ ضیاء محی الدین نے ایک نیا رجحان متعارف کروایا جو آج تک پاکستان ٹیلی ویژن پر کسی نہ کسی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کے سٹیج شو میں ایک سے زیادہ مہمان شامل ہوتے تھے اور سبھی مہمان مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہوتے تھے۔ ضیاء محی الدین ایک ہی پروگرام میں اتنی متنوع صلاحیتوں کی حامل سبھی شخصیات سے گفتگو کرتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہر مہمان کے شعبے کو بہت گہرائی میں جانتے ہیں۔
ضیاء محی الدین شو میں جوش ملیح آبادی، مشتاق احمد یوسفی، خوش بخت عالیہ، محمد علی، شمیم آرا، وحید مراد، صبیحہ خانم، حفیظ جالندھری، مہدی حسن، فریدہ خانم، نور جہاں، رونا لیلیٰ، نیر سلطانہ، نیلو، منور ظریف، ناہید صدیقی، مہاراج کتھک، اعجاز حسین بٹالوی، اشفاق احمد، صفدر میر اور زیڈ اے بخاری جیسی شخصیات جلوہ گر ہوئیں۔ پہلی مرتبہ معین اختر جب پاکستان ٹیلی ویژن پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ بھی ضیاء محی الدین کا یہی شو تھا۔ معین اختر کے علاوہ اسماعیل تارا، خالد عباس ڈار جیسے کامیڈین بھی اسی شو کے توسط سے ناظرین سے متعارف ہوئے۔
پائل
پاکستان ٹیلی ویژن سے ان کا اگلا پیش کیا جانا والا پروگرام پائل تھا جس میں کتھک کی نامور رقاصہ ناہید صدیقی فن کا مظاہرہ کرتی تھیں اور ضیاء محی الدین کمپیئرنگ کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ پروگرام کا سکرپٹ بھی ضیاء محی الدین تحریر کرتے تھے۔ یہ پروگرام 1978 میں نشر ہونا شروع ہوا اور یہ 13 قسطوں میں مکمل ہونا تھا مگر ضیاء الحق کی رقص اور موسیقی پر لگائی جانے والی پابندیوں کی زنجیر نے 'پائل' کو بھی گرفت میں لے لیا اور محض 5 ہی قسطوں کے بعد یہ پروگرام بند کر دیا گیا۔
فیض صاحب کی محبت میں
1986 میں پی ٹی وی سے یہ سلسلہ وار پروگرام پیش کیا گیا جس میں ضیاء محی الدین پس پردہ رواں آلاتی موسیقی کے جلو میں فیض احمد فیض کے اشعار، قطعے، نظمیں اور غزلیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔
ضیاء محی الدین شو
ضیاء الحق کی آمریت کا دور ختم ہوا تو ضیاء محی الدین وطن واپس آ گئے۔ شوکت زین العابدین نے دو دہائی پہلے والا ضیاء محی الدین شو پھر سے ٹیلی ویژن سے پیش کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ 1995 میں اس سلسلے کے کچھ پروگرام ریکارڈ کیے گئے۔ پروگرام کے اجزائے ترکیبی اگرچہ وہی تھے مگر یہ مابعد ضیاء الحق دور تھا اور اب کی بار ناظرین و سامعین کا ذوق کچھ حد تک بدل چکا تھا۔ دیکھنے والوں کی بدنصیبی تھی کہ ان کی توجہ اس زمانے میں کہیں اور مرکوز تھی یا شاید منتشر ہو چکی تھی جس کے باعث یہ پروگرام زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔
دُھن ہماری تمہارے نام ہوئی
1990 کی دہائی کے آخری سالوں میں پی ٹی وی سے یہ شو پیش کیا گیا۔ شعیب منصور کی پروڈکشن میں تیار ہونے والے اس شو کے میزبان ضیاء محی الدین تھے۔ اس پروگرام میں ایسی پاکستانی دھنیں پیش کی گئیں جن کا چربہ تیار کر کے بھارت میں گیت بنائے گئے۔ اس میں بعض ایسی دھنوں کا بھی ذکر شامل تھا جو تیار تو بھارت میں ہوئیں مگر پاکستان کے موسیقاروں نے ان سے متاثر ہو کر یا ان کا چربہ تیار کرکے فلمی گیت تخلیق کیے۔
جو جانے وہ جیتے
2002 میں کون بنے گا کروڑ پتی کی طرز پر پاکستان ٹیلی ویژن نے یہ پروگرام شروع کیا۔ ضیاء محی الدین اس پروگرام کے میزبان اور سکرپٹ رائٹر تھے۔ قریش پور اور عبید اللہ بیگ بطور ماہرین پروگرام کا حصہ ہوتے تھے۔ پروگرام کی ہدایات و پیشکش ایوب خاور کے ذمے تھیں۔
پاکستانی فلموں میں اداکاری
ضیاء محی الدین نے چند پاکستانی فلموں میں بھی کام کیا مگر یہ فلمیں ناظرین کا دل جیتنے میں ناکام رہیں۔
مجرم کون؟
1971 میں ہدایت کار اسلم ڈار کی ریلیز ہونے والی اس فلم میں ضیاء محی الدین کے ساتھ علاؤالدین، ریحان، ساقی، رنگیلا اور سلطان راہی نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اگرچہ فلم کی کہانی تجسس، سنسنی، مزاح، ایکشن، رومانس، ناچ، گیتوں سمیت ہر طرح کے دل پسند مصالحے میں گندھی ہوئی تھی مگر یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہو گئی۔
سہاگ
سہاگ 1972 میں ریلیز ہوئی جس میں ندیم، شمیم آرا، ضیاء محی الدین، زمرد اور آغا طالش نے اداکاری کی۔ فرید احمد فلم کے ہدایت کار تھے۔ یہ فلم بھی ناکام ہوئی اور یوں ضیاء محی الدین نے فیصلہ کیا کہ وہ دوبارہ کسی پاکستانی فلم کا حصہ نہیں بنیں گے۔
پی آئی اے آرٹس اکیڈمی میں تعیناتی
1973 میں ضیاء محی الدین پی آئی اے آرٹس اکیڈمی میں بطور ڈائریکٹر تعینات ہوئے۔ اکیڈمی نے پاکستان کی ثقافت کو پوری دنیا میں متعارف کروانے کا ایک پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام کے تحت ضیاء محی الدین نے پاکستان میں فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات کو ہمراہ لے کر دنیا کے بہت سے ملکوں کے سفر کیے۔ ان میں ایران، مصر، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، کوریا، چین، سپین، الجزائر، مراکش، تیونس، اردن، روس، مالٹا، فرانس اور جاپان شامل ہیں۔ 1977 تک وہ پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کا حصہ رہے۔
1970 کی دہائی کے آخر میں جب ملک ضیاء الحق کی آمریت کے جال میں پھنس چکا تو فنون لطیفہ بھی پابندیوں کے نرغے میں آ گئے۔ اسی دوران ضیاء محی الدین نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کی اور پھر سے برطانیہ جا بسے۔
فن پڑھنت کاری کے تاج ور بادشاہ
1980 کی دہائی کے وسط میں انہوں نے سال کے آخری دن 'ایک شام ضیاء محی الدین ساتھ' کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا جس میں وہ اردو شاعری اور اردو نثر میں سے منتخب حصے پڑھ کر سناتے تھے۔ اس سلسلے نے ایک روایت کی شکل اختیار کر لی اور کم و بیش 35 سال تک یہ روایت برقرار رہی۔ انہوں نے اپنے کمال لب و لہجے، آواز کے زیرو بم اور اتار چڑھاؤ کے ساتھ فن پڑھنت کاری کو اوج کمال تک پہنچا دیا اور اردو پڑھنت کا مقبول چہرہ بن گئے۔ یوں ضیاء محی الدین کی آواز اردو ادب کی توانا آواز بن کر دنیا بھر میں گونجنے لگی۔
مرزا غالب، میر تقی میر، علامہ اقبال، فیض احمد فیض، ن م راشد، ناصر کاظمی کی شاعری کو انہوں نے اپنی آواز کے جادو میں گھول کر ایسے ایسے گوشے وا کر دیے جو عام طور پر قاری کی نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔
نثر میں جن پاروں کو ان کی آواز کی زینت میسر آئی ان میں سب سے نمایاں غالب کے خطوط ہیں۔ ضیاء محی الدین جب یہ کہتے ہیں کہ انہیں اپنی چند ہی چیزوں پر ناز ہے تو وہ اس میں غالب کے خطوط کو بھی شامل کرتے ہیں۔ غالب کے خطوط کے علاوہ انہوں نے ڈپٹی نذیر احمد، امتیاز علی تاج، شوکت تھانوی، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، منشی پریم چند، عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ، شاہد احمد دہلوی، ابن انشاء، پطرس بخاری، محمد علی ردولوی، انتظار حسین، مشتاق احمد یوسفی، رشید احمد صدیقی، کرنل محمد خان، اسد محمد خان، جاوید صدیقی اور دیگر کئی مصنفین کی تحریروں کے بعض حصے پڑھے ہیں جنہیں یوٹیوب کی مدد سے سنا جا سکتا ہے۔
فن مرثیہ گوئی
اسی دوران ضیاء محی الدین طویل عرصے تک مرثیے پڑھتے رہے ہیں۔ محرم کے دنوں میں ضیاء محی الدین کی آواز میں یہ مرثیے جب پی ٹی وی سے پیش کیے جاتے تھے تو شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو گا جہاں اونچی آواز میں ٹی وی چلا کر انہیں نہ سنا جاتا ہو۔ انہوں نے میر انیس، جوش ملیح آبادی اور مصطفیٰ زیدی کے مرثیے کچھ اس انداز سے عوام الناس کی سماعتوں کی ںذر کیے کہ یہ ان کا خاصا بن کر رہ گئے۔
نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کراچی
2005 میں جنرل پرویز مشرف نے انہیں کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کھولنے کی پیشکش کی جو انہوں نے قبول کر لی۔ وہ تادم مرگ اس ادارے کے ساتھ وابستہ رہے اور نئی نسل کو اداکاری، صدا کاری، ہدایت کاری اور درست تلفظ کے اسرار و رموز سے آشنا کرواتے رہے۔ ناپا کے سٹیج سے انہوں نے کئی کھیل پیش کیے۔ 2022 میں انہوں نے شیکسپیئر کے پلے رومیو اینڈ جولیٹ کو اردو زبان میں پیش کیا۔
اداکاری سے متعلق ان کا نکتہ نظر تھا کہ اداکاری لمبی ریاضت کا تقاضا کرتی ہے۔ تلفظ درست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اداکار کے لئے ضروری ہے کہ وہ پکے گویے کی مانند سانس کی ورزشیں کرے۔ معیاری اداکار کے لئے ضروری ہے کہ اس کا سانس مضبوط ہو تاکہ بولتے وقت سانس کی آواز لفظوں کے بیچ نہ سنائی دے۔
ازدواجی زندگی
ضیاء الدین نے اپنی زندگی میں تین شادیاں کیں۔ پہلی شادی سروز زمان سے خاندان کی مرضی سے کی۔ دوسری شادی کتھک کی معروف رقاصہ ناہید صدیقی سے کی اور تیسری شادی ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ عذرا زیدی سے کی جو آخری دم تک برقرار رہی۔ ضیاء محی الدین کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
تصانیف
ضیاء محی الدین کی متفرق تحریریں تین تصانیف کی صورت میں موجود ہیں؛
A Carrot is a Carrot
The God of my Idolatry
Theatrics
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں!
ضیاء محی الدین کی بے مثال خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں کئی اعزازات سے نوازا۔ ان میں تمغہ امتیاز، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز شامل ہیں۔ تاہم ان سے جب پوچھا جاتا کہ آپ نے جو کچھ حاصل کیا، اس پر مطمئن ہیں تو وہ جواب دیتے کہ پیچھے مڑ کے دیکھوں تو لگتا ہے کہ زندگی میں کچھ خاص نہیں کر پایا، ہاں دو چار چیزیں ہیں جن پہ فخر کر سکتا ہوں۔ دو ایک کھیل ہیں جو زیادہ برے نہیں کیے۔
جب کسی ایک ہی انسان میں اتنا بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہو اور اس نے مختلف شعبوں میں طبع آزمائی کرکے ہر ہر جگہ ناقابل تقلید نقوش بھی ثبت کیے ہوں تو یہ فطری بات ہے کہ وہ کبھی اپنے کام سے مطمئن نہیں ہو سکتا۔ اس کے اندر پنہاں بے پناہ ٹیلنٹ اسے ہمیشہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں رکھتا ہے۔ یہی وہ جستجو تھی جو 91 برس کی عمر میں بھی ضیاء محی الدین کے اندر جاوداں رہی۔