ڈاکٹر عمار علی جان کی جانب سے ایڈووکیٹ سپریم کورٹ حنا جیلانی، ایڈووکیٹ ایاز صفدر سندھو ، ایڈووکیٹ حمزہ حیدر اور ایڈووکیٹ حیدر علی بٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت ڈپٹی کمشنر لاہور پیش نہ ہوئے البتہ ان کے وکلا کی ٹیم عدالت میں پیش ہوئی۔ عدالت نے ڈی سی لاہور کے وکلا سے استفسار کیا کہ ڈاکٹر عمار جان کو حراست میں لینے کے احکامات کیوں جاری کئے گئے اس پر ثبوت پیش کئے جائیں جس پر ڈپٹی کمشنر لاہور کے وکلا نے عدالت سے ثبوت فراہم کرنے کی مہلت مانگ لی۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر لاہور کو وارننگ دی اور کہا کہ 3 فروری تک ڈاکٹر عمار جان کے خلاف ثبوت فراہم کیے جائیں یا کیس واپس لیا جائے ورنہ وہ ڈپٹی کمشنر لاہور کے خلاف سخت فیصلہ دیں گے جس سے ان کا کئیریر داؤ پر لگ سکتا ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ قاسم علی خان نے مزید کہا کہ ہر ملک میں شہریوں کو احتجاج اور تنقید کرنے کی آزادی ہے، آزاد ریاست میں اس حق کو کیسے چھینا جاسکتا ہے؟
چیف جسٹس نے ڈپٹی کمشنر لاہور کے وکلا سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیس داخل کراوئے 2 ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے مگر آپ نے ابھی تک کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جس پرحکومتی وکلا نے ثبوت فراہم کرنے کی مزید مہلت مانگی جس کی بنا پر کیس کی سماعت 3 فروری تک معطل کر دی گئی۔
یاد رہے کہ 27 نومبر 2019 کو ڈپٹی کمشنر لاہور کی جانب سے پولیس حکام کو ایک حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں لکھا گیا تھا کہ حقوقِ خلق موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر عمار علی جان سیکیورٹی رسک اور خوف کی علامت ہیں اس لئے انہیں 6 ماہ کے لئے حراست میں لیا جائے۔