روزنامہ جنگ میں لکھے گئے اپنے کالم میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ یہ خبریں غلط ہوں گی لیکن اگر حکومت واقعی ایسا سوچ رہی ہے یا وزیراعظم کو ایسا مشورہ دیا جا رہا ہے تو یہ ایسی بڑی غلطی ہوگی جو حکومت کے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔ میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ فوج کے متعلق اس قسم کے اہم فیصلوں کو اپنے وقت پر ہی کیا جائے۔ جلدی خطرناک ثابت ہو گی۔
انصار عباسی نے کالم میں لکھا کہ مریم نواز کہتی ہیں کہ حکومت کے جانے کا وقت آ چکا اور اب مہینوں یا ہفتوں نہیں بلکہ دنوں کی بات ہے۔ وہ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں، اُن کے پاس کیا اطلاعات ہیں اُنہوں نے نہیں بتایا لیکن لگتا نہیں کہ جو وہ کہہ رہی ہیں وہ ہونے والا ہے۔ دِنوں میں کیا ہفتوں تک حکومت کے جانے کے کوئی اشارے نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وجہ یہ نہیں کہ حکومت بہت زبردست کام کر رہی ہے بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ حکومت انتہائی نااہل ثابت ہو چکی اور اُس کی پرفارمنس بہت خراب ہے، اتنی خراب کہ تحریک انصاف کے اپنے اراکین اسمبلی اور اتحادی ناخوش ہیں۔ لیکن اس کی وجہ سے حکومت کے جانے کا کوئی چانس نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے پاس بھی کوئی ایسی حکمت عملی نہیں کہ حکومت کو چلتا کرے۔ اس سلسلے میں اگر یہ کہا جائے کہ اپوزیشن اپنی نااہلی میں حکومت کو بھی مات دے رہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
اںصار عباسی کا کہنا تھا کہ ایک طرف اگر اپوزیشن تقسیم ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف میں بیٹھی دونوں بڑی جماعتیں یعنی مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی خود تو کوئی Initiative لینے کے لیے تیار نہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ سے امید لگائے بیٹھی ہیں کہ حکومت سے اختلاف ہونے پر وہ عمران خان کو فارغ کرے۔
انہوں نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کام کے لیے اسٹیبلشمنٹ ابھی تک تیار نہیں۔ آج کل ایمرجنسی کے نفاذ کی افواہیں بھی خوب گردش کر رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ملک میں ایمرجنسی لگانا چاہتے ہیں تاکہ اس دوران صدارتی نظام کے حق میں ریفرنڈم کرایا جاسکے۔ گپ شپ کی حد تک تو یہ سب چلتا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں اور اس کی وجہ آئین پاکستان ہے جس میں ایمرجنسی لگانے کی کچھ سخت شرائط ہیں جنہیں پورا کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر صدر ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں ایمرجنسی کے حق میں پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ سے ایمرجنسی کے حق میں قرارداد پاس کروانا لازم ہوگا ورنہ ایمرجنسی قائم نہیں رہ سکتی۔ جہاں تک صدارتی نظام کے لیے ریفرنڈم کرانے کی بات ہے تو یہ بات بھی وہی کر سکتے ہیں جن کو آئین و قانون کا علم نہیں۔ آئین پاکستان میں ریفرنڈم کی شق ضرور موجود ہے لیکن پارلیمانی نظام حکومت ہمارے آئین کے اُس بنیادی ڈھانچے میں شامل ہے جسے محض ریفرنڈم کے ذریعے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
انصار عباسی نے لکھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تو آئینی ترمیم کے طریق کار کے ذریعے یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ کی دوتہائی اکثریت سے بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے ہی نہیں۔ آئین پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے آئین ساز اسمبلی کا قیام ضروری ہے جس کے لیے الیکشن میں آئین کے ڈھانچہ میں بنیادی تبدیلی کے سوال پر الیکشن لڑا جاتا ہے اور الیکشن جیتنے کی صورت میں آئین ساز اسمبلی آئین میں وہ تبدیلی کر سکتی جس کی بنیاد پر الیکشن لڑا گیا۔ آئین کے ڈھانچے اور بنیاد کے تحفظ کے لیے عدلیہ بھی محافظ کا کردار ادا کرتی ہے، اس لیے صدارتی نظام کی بات افواہوں کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ سفر بھی ناممکنات میں سے ہے۔ گویا حالات ایسے ہی رہیں گے، حکومت بھی چلتی رہی گے، مہنگائی، معیشت کی خرابی، خراب طرز حکمرانی یہ سب بھی چلتا رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے جانے کی ایک وجہ یہ تو ہو سکتی ہے کہ کوئی انقلاب آجائے اور لوگ حکومت کے خاتمہ کے لیے گھروں سے نکل آئیں۔ اپوزیشن کے لانگ مارچ اور دھرنوں سے حکومت کو کچھ نہیں ہونے والا۔ ہاں ایک وجہ سے حکومت کی رخصتی ممکن ہی نہیں بلکہ یقینی ہو گی اور وہ وجہ وزیر اعظم عمران خان کی ایک بڑی غلطی کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ چند ماہ پہلے خان صاحب نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی میں غلطی کی جس کی وجہ سے وہ ویسے لاڈلے نہیں رہے جیسے ماضی میں ہوا کرتے تھے۔ لیکن جس بڑی غلطی کی بات میں کر رہا ہوں وہ اگر خان صاحب نے کر لی تو میری دانست میں حکومت کا مزید چلنا ممکن نہیں رہے گا۔ یہ غیر تصدیق شدہ خبریں اسلام آباد میں گردش کر رہی ہیں کہ خان صاحب آرمی چیف کی تعیناتی کے متعلق فیصلہ ایک دو ماہ میں کرسکتے ہیں۔