ایک غیر سرکاری غیر منافع بخش ادارے، یونائیٹڈ نیٹ ورک فار آرگن شیئرنگ کے مطابق گزشتہ برس تقریباً 41345 امریکیوں میں اعضا کی پیوندکاری کی گئی۔ ان میں سے نصف کے گردے خراب تھے۔ لیکن پیوندکاری کے لیے دستیاب اعضا کی بہت زیادہ کمی ہے۔ ہر روز ایک درجن کے قریب امریکی اعضا کی پیوندکاری نہ ہونے کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ تقریباً 3817 امریکیوں کو گزشتہ برس انسانی دل کا عطیہ مل گیا۔ لیکن، طلب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، عام طور پر ان اعضا کی طلب بڑھی ہے جو انسانی زندگی کے لئے اہم کردار رکھتے ہیں جیسے کہ دل۔
چونکہ دل کسی زندہ انسان سے نہیں لیا جا سکتا تو اس نتیجے میں یہ دل کی پیوندکاری کرنا شدید مشکل کام ہے۔ دل کی پیوندکاری کرتے وقت باقی اعضا کی طرح اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ یہ اعضا لینے والے کے جسم سے موافقت رکھیں اور اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ انسان کی موت کی بعد کچھ گھنٹوں میں ہی اُسکے دل کو محفوظ کرلیا جائے اور دوسرے انسان کو منتقل کیا جائے۔ ان سب مشکلات کے سبب دل یا باقی اعضا کی پیوندکاری انتہائی مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔ اس سلسلے میں کچھ دینی حلقوں اور عوام میں یہ بحث چھڈ گئی ہے کہ آیا مذہبی طور پر یہ فعل جائز ہے کہ نہیں۔
یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کچھ حلقوں کی جانب سے اسکو ناجائز قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ سب سے بنیادی اصول اسلام کا یہ ہے کی اگر انسان کو اپنی جان بچانے کے لیے کسی حرام کام کا بھی مرتکب ہونا پڑے یا کلمہ کُفر بھی بکنا پڑے تو اس میں کوئی عار نہیں اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں کی کسی ایک شخص کی جان بچانا گویا پوری انسانیت کی جان بچانا ہے۔ اعضا کی پیوندکاری کوئی شوق یا کھیل تماشے کی بنیاد پر نہیں ہوتا یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے اور کسی شخص کی زندگی اور موت کی کشمش کا بائیس ہے۔ جو لوگ اسے حرام يا ناجائز قرار دے رہے ہیں ان كو تھوڑا غور و تفکر کرنا چاہئے۔
ہمیں سیرتِ نبوی ﷺ میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جب رسولِ خدا ﷺ نے جن کاموں سے منع فرمایا تھا، زندگی اور موت کی کشمکش میں انہیں کرنے کا حکم دیا جیسے کی مردوں کے لیے سونے اور ریشم کا استعمال یا داغ لگوانا، حالانکہ ان سب چیزوں سے اُنہوں نے دور رہنے کا حکم دیا تھا مگر زندگی اور موت کی اضطرابی کیفیت میں ان سب چیزوں کو کروانے کا حکم دیا۔
معذرت کے ساتھ ہمارے علماء اور مولویوں کی اسی شدت پسندی اور دقیانوسی سوچ نے مسلمانوں کو پستی اور ذلّت کی طرف گھسیٹا۔ ہتھیار، کیمرہ، لاؤڈسپیکر اور پرنٹنگ پریس ان سب پر علماء نے پہلے حرام کا فتویٰ جاری کر دیا اور سلطنت عثمانیہ کا قلع قمع ہوا حالانکہ یہ بات بھی دُرست ہے کہ اس سلطنت کے خاتمے کی اور بھی وجوہات ہیں اور یہ سلطنت بہت غیر اسلامی افعال کی مرتکب بھی تھی لیکن اس کے باوجود یہ پرنٹنگ پریس اور ہتھیار کی حرمت کا فتویٰ دے کر اس کو بہت غیر معمولی نقصان پہنچا۔ پھر ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کی اب تو ہمارے علماء کیمرے اور لاؤڈسپیکر کے بغیر کہیں شروع ہی نہیں ہوتے، اور رہی بات پرنٹنگ پریس کی تو اگر آج دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا دین اسلام ہے تو اس میں پرنٹنگ پریس کا غیر معمولی رول ہے۔ قرآن اور دیگر دینی کتابیں پرنٹنگ پریس سے ہی شائع ہوتی ہیں اور پوری دنیا میں اسلام کی تعلیمات کو منتقل کرنے کا اہم ذریعہ بن گئیں ہیں۔
ہماری پستی اور ذلّت کی وجہ یہی ہے کی ہم ابھی تک اسی شدت پسندی اور دقیانوسی سوچ میں مبتلا ہیں جسکی وجہ سے ہم نے دُنیا میں ترقی نہیں کی، میرا کہنا ہرگز یہ نہیں ہے کی ہمیں حلال و حرام کی تمیز بھول کر کام شروع کرنا چاہیے بلکہ ہمیں ہر چیز پر بنا تحقیق کے حرام کے فتوے نہیں دینے چاہیئں۔ اس میں ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کی ہمارے دینی حلقے میں اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو دینی علوم کے سِوا کسی اور علم کی کوئی معلومات نہیں رکھتے، اکثردینی علوم میں بھی وہ کسی ایک فرقے کے نظرئیے کی تبلیغ اور رٹی رٹائی باتیں کرتے رہتے ہیں، ان میں اکثر مطالعے اور مختلف علوم حاصل کرنے کی کوئی دلچسپی موجود نہیں ہوتی اور دینی حلقوں میں اکثر ایسے بچوں کو بھیجا جاتا ہے جو کسی کام میں اچھے نہیں ہوتے یا غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے۔
ہمارے دینی حلقوں میں ذہین لوگ اور دیگر علوم میں مہارت رکھنے والے لوگوں کو نہ آگے آنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی وہاں کا شدت پسندی کا ماحول دیکھ دیکھ وہ آنا پسند کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں ہمارے دینی حلقے ابھی بھی پچھڑے اور پسماندہ ہیں۔ آپ یہ بھی جلد دیکھیں گے کی کوئی صاحب اس بات کا اعلان کردینگے کہ یہ کوئی دجالی فِتنہ ہے۔
افسوس یہ ہے کہ ایک تو ہم سائنس کی دنیا میں کوئی انقلاب نہیں لا رہے اور دوسرا تنقید کر رہے ہیں۔ ہمیں تنقید کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں، یا تو آپ خنزیر کے دل کی جگہ بکری کا دل انسان کے سینے میں لگانے کا کامیاب تجربہ کرکے دکھائیں پھر آپکے پاس اس عمل پر تنقید کا حق حاصل ہوگا ورنہ آپ سر تسلیم خم کر کے اسکو قبول کریں۔ میں بذاتِ خود ان تجربہ کاروں کو سلام پیش کرتا ہوں اور انکا بہت شُکر گزار ہوں کہ انہوں نے یہ تجربہ کرکے انسانیت پر بہت بڑا احسان کیا ہے کیوں کہ یہ عمل مستقبل میں ارتقا کے عمل سے گزر کر سربلندیوں تک پہنچےگا اور اِنسانی جانوں کو بچانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنےگا۔