اگرچہ صنفی غلط معلومات (کردار کے قتل کے مترادف ہے) جمہوری عمل میں خواتین کی شرکت کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں لیکن خواتین امیدواروں کے بارے میں جھوٹے الزامات کا مقصد ان کی سیاسی جماعتوں کے لیے عوامی حمایت کو ختم کرنا ہے جس کا براہ راست اثر انتخابات پر پڑتا ہے۔
حالیہ دو ہائی پروفائل کیسز میں سے ایک جس میں سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے والوں کی ذہنی پسماندگی کی حقارت کی سطح کو اجاگر کیا گیا ہے، پنجاب اسمبلی کی پاکستان مسلم لیگ نواز کی رکن حنا پرویز بٹ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کی گئی غیر اخلاقی و مماثلت پر مبنی جعلی ویڈیوز کے ذریعے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ دوسرے کیس میں ایک ٹویٹر پوسٹ شامل ہے جس میں سابق وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کی رکن شیریں مزاری پر نسلی جارحانہ بیانات دینے کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔ اس تنازعہ کی وجہ سے انہیں اور پی ٹی آئی کو ایک خاص کمیونٹی کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
متاثرین اور سماجی کارکنان جو گزشتہ انتخابات سے سوشل میڈیا ریگولیشن کی مستقل مہم چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کا ماننا ہے کہ انتخابات کے اوقات خواتین سیاستدانوں کو نشانہ بنانے والی ناگوار سوشل میڈیا پوسٹس کے باوجود، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے اب تک کیے گئے اقدامات نے اس مسئلے کو مناسب طریقے سے حل نہیں کیا۔
ایک قابل قبول ضابطہ اخلاق وقت کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پاکستان کے 118 ملین انٹرنیٹ صارفین جو کہ 54 فیصد ملکی آبادی پر مشتمل ہیں وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا فورمز کا غلط استعمال نہ کریں۔
2022 میں سائبر کرائم کی شرح کو کم کرنے کے لئے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (پیکا) میں ترامیم متعارف کروائی گئیں، جس سے پوری میڈیا انڈسٹری کو ایک اتھارٹی کے تحت لانا مقصود تھا، لیکن صحافیوں، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں نے ان ترامیم کو مسترد کیا اور اسے میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش قرار دیا۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر نگہت داد نے کہا کہ سوشل میڈیا فورمز سیاسی منظر نامے پر ایک طاقتور قوت کے طور پر ابھرے ہیں۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ انہی فورمز پر خواتین سیاست دانوں کو آسان ہدف سمجھتے ہوئے ان کی کردار کشی معمول بنتی جا رہی ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ای سی پی، ایف آئی اے اور سیاسی جماعتوں نے ابھی تک سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔
2018 کے قومی انتخابات سے قبل، خواتین سیاست دانوں کی سوشل میڈیا فورمز پر شرکت کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے میں پتا چلا کہ 43 خواتین سیاستدانوں کے فیس بک پیجز پر 43,000 سے زیادہ تبصروں میں سے 49 فیصد بدسلوکی پر مبنی تھے۔ میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نے ای سی پی کو اسی حوالے سے خط لکھا، جس میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو ختم کرنے کے لیے عملی اصولوں کو لاگو کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن اس درخواست پر کوئی قابل قدر کارروائی نہیں ہوئی۔
اگرچہ فیس بک پر عوامی تنقید کے بعد، خاص طور پر کیمبرج اینالیٹیکا سکینڈل کے بعد، میٹا چیف مارک زکربرگ نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے انتخابات پر اثر انداز ہونے والے مواد کو ہٹانے کا وعدہ کیا، لیکن زمینی حقیقت مختلف ہے، جیسا کہ پاکستان میں کیے گئے ایک سوشل میڈیا سروے میں واضح کیا گیا ہے۔
سروے کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ اگرچہ 75 فیصد شرکا نے کہا کہ انہوں نے تصدیق کے بعد ہی مواد شیئر کیا، لیکن جن لوگوں نے کہا کہ انہوں نے مواد کی تصدیق کی ہے ان میں سے 82 فیصد نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ ایک ایسے مواد کو حقیقت سمجھ رہے تھے جو کہ اصل میں جھوٹ تھا۔ اس سروے میں پتا چلا ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جعلی خبریں نوجوان ووٹروں کو گمراہ کرنے میں کافی مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر مبنی جعلی خبروں کا تدارک کرنے کے لیے مزید آگاہی مہم چلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ اس بگڑتی ہوئی صورت حال کو درست کرنے کی ذمہ داری بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عائد ہوتی ہے۔
سماجی کارکنان خواتین سیاست دانوں کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال اور گمراہ ہونے والے وہ صارفین جن کی عمریں 16 سے 35 سال ہیں ان کی غلط فہمی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ جو پاکستان کے انٹرنیٹ صارفین کا تقریباً 65 فیصد حصہ بنتے ہیں۔ ایک بار غلط معلومات پھیلنے کے بعد اس کے اثرات کو ختم کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے جس کا براہ راست اثر ووٹنگ کی ترجیحات پر پڑتا ہے۔
متنازعہ ٹویٹر پوسٹ جس میں مبینہ طور پر سابق وزیر شیریں مزاری سے منسوب ایک بیان دیا گیا تھا، پوسٹ میں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے پاکستانی پختونوں کا افغان طالبان سے موازنہ کیا ہے۔ جبکہ شیریں مزاری کا مؤقف تھا کہ اس جعلی خبر کے بعد ہونے والی تنقید کا سلسلہ اس قدر شدید تھا کہ انہیں اسمبلی کے فلور پر اپنے مؤقف کی وضاحت کرنی پڑی کہ کیسے ان کے ایک انٹرویو میں کیے گئے تبصروں کو توڑ مروڑ کر کہانی کو نیا رخ دے دیا گیا۔
اگرچہ زیادہ تر خواتین سیاست دان سوشل میڈیا ٹرولز کا شکار بنتی ہیں، لیکن صرف چند خواتین ہی اس مسئلے کا مقابلہ کرنے میں کھل کر بولتی ہیں۔ جن میں سے ایک سیاست دان حنا پرویز بٹ ہیں جو سوشل میڈیا پر کردار کشی کا شکار ہوئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ: ' سوشل میڈیا ٹرولنگ اور ادارہ جاتی ہراسانی کرنا ایک ایسی چیز ہے جس کا سامنا زیادہ تر خواتین کو مضبوط نقطہ نظر سے کرنا پڑتا ہے لیکن ٹرولرز کو یہ احساس نہیں ہے کہ وہ صرف ہمیں مضبوط بنا رہے ہیں۔'
اخلاقیات پر مبنی سوشل میڈیا آرڈر کے لیے مہم چلانے والی حنا پرویز بٹ پہلی بار رکن صوبائی اسمبلی بننے کے بعد 2014 سے جعلی خبروں کی نشاندہی کر رہی ہیں اور پارٹی مؤقف سے عوام کو آگاہ کر رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک جعلی ویڈیو کا انہوں نے کامیابی سے مقابلہ کیا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اس کلپ میں ان سے مماثلت رکھتی ایک عورت کو ایسی حرکات کرتے دکھایا گیا جو روایتی اسلامی اقدار کے مطابق نہیں تھیں۔ وہ راتوں رات ٹاک آف دی ٹاؤن بن گئیں اور انہیں ٹویٹر پر چلنے والے ٹرینڈز کی مدد سے بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔
2015 کے بلدیاتی انتخابات سے پہلے، ای سی پی نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ سے اور سیاست دانوں کو ایسے بیانات دینے سے روک کر امن عامہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جو عوامی امن کو خراب کر سکتے تھے۔ ای سی پی نے اخبارات کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کے حوالے سے عوامی آگاہی مہم چلائی لیکن ان کے تسلی بخش نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
ای سی پی تسلیم کرتا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران خواتین سیاست دانوں کی کردار کشی کے تدارک کے لئے سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کی جانچ پڑتال کرنا کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ پنجاب الیکشن کمیشن کی ترجمان ہدا علی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کی نگرانی کے لیے سخت اقدامات کرتا ہے۔ ای سی پی کے ضابطہ اخلاق میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کمیشن ذاتی حملوں اور کردار کشی کو برداشت نہیں کرے گا چاہے ان کا ہدف مرد ہوں یا خواتین۔
ان کا کہنا ہے کہ امیدواروں کی الیکٹرانک میڈیا مہم میں ان کی تقاریر کی بھی نگرانی کی جاتی ہے۔ ای سی پی اگر ضروری سمجھے تو الیکٹرانک میڈیا میں انتخابی مہم کی نگرانی کے لیے پاکستان الیکٹرانک میڈیا مانیٹرنگ اتھارٹی (پیمرا) کو آن بورڈ لے لیتا ہے۔
ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ای سی پی تجویز کردہ ضابطہ اخلاق کے تحت مانیٹرنگ ٹیموں کو ضلعی سطح پر نامزد کرتا ہے جس کی سربراہی ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسرز کرتے ہیں، جو ای سی پی کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہیں۔ ہدا علی بتاتی ہیں کہ خلاف ورزیوں کی صورت میں ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسرز کو کارروائی کرنے، نوٹس اور وارننگ جاری کرنے اور سنگین خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے عائد کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔
اگر کوئی امیدوار بار بار ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتا ہے یا کسی خاتون امیدوار سے متعلق نامناسب الفاظ استعمال کرتا ہے تو ڈی ایم او ضروری کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن کو رپورٹ بھیجنے کا پابند ہوگا۔ الزامات ثابت ہونے پر ای سی پی ملزم امیدوار پر جرمانہ عائد کرے گا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ای سی پی ضابطہ کی خلاف ورزی کی شدت کے لحاظ سے کسی امیدوار یا سیاسی جماعت کو بھی نااہل قرار دے سکتا ہے۔
وزارت اطلاعات کی جانب سے ایک مثبت پیش رفت 6 اکتوبر 2018 کو فیکٹ چیکر منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ کے نام سے ایک ٹویٹر ہینڈل کی صورت میں ہوئی تاکہ جعلی خبروں کی شناخت کی جا سکے اور ان کا تدارک کیا جا سکے لیکن یہ زیادہ تر حکومت کے بارے میں جعلی خبروں سے نمٹنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ایک جانب وزارت اطلاعات حکومت کو نشانہ بنانے والی جعلی خبروں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے جبکہ دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنی جماعت سے متعلق جعلی خبروں سے نمٹنے کے بارے میں فکر مند ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر خواتین سیاست دانوں کی کردار کشی کے واقعات کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ جو کہ محض ایک خود غرض سیاست کی واضح مثال ہے۔
عام شہریوں کی طرف سے کردار کشی اور غلط معلومات کے تدارک کے لیے، پیکا کی شق نمبر 20 تین سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے تجویز کرتی ہے۔ فیڈرل انفارمیشن کمیشن کے ذریعے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بدقسمتی سے یہ قانون زیادہ تر صحافیوں پر لاگو ہوا ہے۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال پیکا کے تحت درج کیے گئے 18 مقدمات میں سے 11 صحافیوں کی گرفتاریاں شامل تھیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس شق کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے ترامیم کی سفارش کی ہے۔ تاہم یہ قانون کچھ مثبت خصوصیات کا حامل بھی ہے۔ مثال کے طور پر سیکشن 34 ایف آئی اے کو سوشل میڈیا سے غلط اور نامناسب مواد ہٹانے کا اختیار دیتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ سوشل میڈیا فورمز کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے صارفین کی ذاتی معلومات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں لیکن اس پالیسی نے سوشل میڈیا کے آزادانہ اور غلط استعمال کی راہ ہموار کر دی ہے۔
جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس اپنی حقیقی و جغرافیائی معلومات کو چھپانے کے لیے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کا استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنا تحفظ یقینی بناتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین میں افراتفری پھیلائی جا سکے۔ ایف آئی اے کے ایک سینیئر عہدیدار نے تسلیم کیا کہ قانون نافذ کرنے والے مقامی ادارے سائبر کرائم کے مرتکب ایسے اکاؤنٹس کا سراغ لگانے سے قاصر ہیں جو پراکسی کا استعمال کرتے ہیں۔
ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ کے پاس خواتین سیاست دانوں کی کردار کشی کے حوالے سے شکایات اور کارروائیوں کے اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔
پاکستان کی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں سیاست اور سماجی اقتصادی شعبوں میں درپیش سخت چیلنجز اور بڑی رکاوٹوں کو سامنا رکھا جائے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ پاکستان خواتین، امن اور سلامتی کے انڈیکس 22-2021 میں 167 ویں نمبر پر ہے۔
سماجی کارکنان کا ماننا ہے کہ اگر حکومتی ادارے خواتین کو نظام کا فعال حصہ بنانے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اسمبلی فلور پر علامتی نہیں بلکہ حقیقی نمائندگی دی جانی چاہئیے۔ انہیں سوشل میڈیا پر ہراساں ہونے سے بچانے کے لئے سنجیدہ و مستقل اقدامات کئے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین سیاست میں آئیں اور ملک کو بحران سے بچانے اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ جبکہ سوشل میڈیا فورمز اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے اداروں کے ساتھ قریبی تعلقات کے ساتھ ساتھ ایک نگران اتھارٹی کا قیام بھی وقت کی ضرورت ہے تاکہ جعلی خبروں کا بروقت تدارک اور نامناسب مواد کی تشہیر کرنے والوں کو جوابدہ ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف فوری کارروائی کی جائے اور مجرموں کو عبرتناک سزا دی جائے۔
نوٹ: الیکشن رپورٹنگ پر یہ سٹوری ایشیئن میڈیا فیلوشپ (اینفرل) کے تحت تیار کی گئی ہے۔