دہشت گردی کی جڑیں

دہشت گردی کی جڑیں غربت، سماجی ناانصافی، اور تعلیم کی کمی میں چھپی ہوئی ہیں، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں، دہشت گردی کا مسئلہ اس وقت بڑھا جب حکومت نے ان علاقوں میں لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کا،ان علاقوں میں لوگ اپنے حقوق سے محروم تھے اور ان کی آوازوں کو دبایا گیا تھا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں کے لوگ ان دہشت گرد گروپوں کی طرف مائل ہوئے جو ان کے لیے آزادی اور انصاف کا وعدہ کرتے تھے، اس کا ایک اور پہلو عالمی سیاست ہے، جہاں طاقتور ممالک نے ان علاقوں میں اپنے مفادات کے لیے مداخلت کی، جس سے مزید مشکلات پیدا ہوئیں

06:20 PM, 20 Jan, 2025

حسن عمر

دہشت گردی کا ہر واقعہ صرف ایک تباہی نہیں لاتا، بلکہ یہ انسانیت کے لیے ایک اذیت بھی ہوتی ہے۔ جب ایک بم پھٹتا ہے، تو وہ صرف ایک جسم کو نہیں چیرتا، بلکہ ایک قوم کے دل کو بھی زخمی کرتا ہے۔ وہ لوگ جو ان حملوں کا شکار ہوتے ہیں، ان کی زندگی کے سچے معنی نہیں ہوتے، بلکہ وہ اس بات کی علامت بن جاتے ہیں کہ دنیا نے ان کو اس قدر نظرانداز کیا کہ ان کے لیے کوئی محفوظ راستہ باقی نہیں رہا۔ یہی وہ جڑ ہے جہاں سے دہشت گردی پھوٹتی ہے۔

 دہشت گردی کی جڑیں غربت، سماجی ناانصافی، اور تعلیم کی کمی میں چھپی ہوئی ہیں۔ جب ایک نوجوان تعلیم سے محروم ہوتا ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کے علاقے میں وسائل نہیں ہیں، جب وہ احساس کرتا ہے کہ حکومت اسے نظرانداز کرتی ہے، تو یہ وہ جذبات ہیں جو دہشت گرد تنظیموں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ ان گروپوں کے پاس ایک ایسا پیغام ہوتا ہے جو ان حالات سے تنگ آئے ہوئے فرد کے لیے ایک لالچ کی طرح ہوتا ہے:”ہم آپ کو وہ طاقت دیں گے جس سے آپ کا مستقبل بدل جائے گا۔“ لیکن یہ طاقت دراصل تباہی اور نفرت کی طاقت ہوتی ہے۔

یہ مسئلہ محض ایک علاقے یا ایک ملک کا نہیں ہے، دنیا کے ہر حصے میں دہشت گردی نے اپنی جڑیں پھیلائی ہیں۔ شام سے لے کر افغانستان تک، پاکستان سے عراق تک، ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں بھی عدم استحکام، غربت، اور بے روزگاری کا سامنا ہوتا ہے، وہاں دہشت گردی سر اٹھاتی ہے۔ ان علاقوں میں جب لوگوں کے پاس کھانے پینے، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں نہیں ہوتیں، تو وہ ان گروپوں کی طرف رُخ کرتے ہیں جو انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ ان کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

پاکستان کی مثال لے لیں، یہاں کے کئی علاقے دہشت گردی کے متاثرہ ہیں، خاص طور پر وہ علاقے جہاں شدت پسندی اور انتہاپسندی کے گروہ بڑھ چکے ہیں۔ ان علاقوں میں جہاں لوگوں کو روزگار، تعلیم، اور تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے، دہشت گرد گروہ انہیں اپنے چکر میں پھنساتے ہیں۔ جب حکومتیں اپنی عوام کو انصاف اور بنیادی حقوق نہیں دیتیں، تو ان کے لیے اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑنا ایک راستہ بن جاتا ہے۔

 پاکستان کے قبائلی علاقوں میں، دہشت گردی کا مسئلہ اس وقت بڑھا جب حکومت نے ان علاقوں میں لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ان علاقوں میں لوگ اپنے حقوق سے محروم تھے اور ان کی آوازوں کو دبایا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں کے لوگ ان دہشت گرد گروپوں کی طرف مائل ہوئے جو ان کے لیے آزادی اور انصاف کا وعدہ کرتے تھے۔ اس کا ایک اور پہلو عالمی سیاست ہے، جہاں طاقتور ممالک نے ان علاقوں میں اپنے مفادات کے لیے مداخلت کی، جس سے مزید مشکلات پیدا ہوئیں۔

 دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمیں ان بنیادی وجوہات کو سمجھنا ہوگا جو اس کی تخلیق کرتی ہیں۔ ہمیں صرف اس کے نتائج کے ساتھ نہیں، بلکہ اس کے اصل اسباب کے ساتھ لڑنا ہوگا۔ جب تک معاشی اور سماجی انصاف کی فراہمی نہیں ہوگی، تب تک دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف فوجی کارروائیاں ناکافی ہیں۔ ہمیں ان سماجی، معاشی، اور تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے جو انسانوں کو ان گروپوں کی طرف مائل ہونے سے روکے۔

 اس کے علاوہ، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر ایک مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ جب تک عالمی طاقتیں اس بات کو نہیں سمجھیں گی کہ دہشت گردی کی جڑیں صرف ایک علاقے یا ایک ملک میں نہیں ہیں، تب تک اس کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مفادات کو چھوڑ کر ان علاقوں میں امن کے قیام کے لیے کام کریں جہاں دہشت گردی کی لہر نے جڑ پکڑ رکھی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ایک ملک میں دہشت گردی ہے تو وہ پورے خطے اور عالمی سطح پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

 دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مذہب اور فرقہ واریت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جب تک ہم اپنے مذہبی، ثقافتی، اور نسلی اختلافات کو بالائے طاق نہیں رکھتے، تب تک امن کا قیام مشکل ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں ان اختلافات کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کو اپنے جھوٹے نظریات کی طرف راغب کرتی ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ ہم سب کو اپنے دلوں میں محبت اور احترام کی جگہ دیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اختلافات کے باوجود ہم سب انسان ہیں اور ہمارے حقوق برابر ہیں۔

 دنیا میں ایک مثبت تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے عوام کو تعلیم دیں۔ تعلیم وہ ہتھیار ہے جو دہشت گردی کے خلاف سب سے مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ جب لوگوں کو اپنے حقوق کا علم ہوتا ہے، جب انہیں یہ سمجھ آتا ہے کہ وہ کسی دہشت گرد گروہ کے بہکانے کا شکار نہیں ہوں گے، تو وہ ان گروپوں سے دور رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، جب افراد کو روزگار ملتا ہے، جب وہ اپنی زندگی کے لیے ایک بہتر راستہ دیکھتے ہیں، تو ان میں سے بہت سے دہشت گردی کی طرف نہیں بڑھتے۔

 اگر ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان نوجوانوں کے ساتھ کام کرنا ہوگا جو اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمیں ان کی زندگیوں میں وہ مثبت تبدیلی لانی ہوگی جو انہیں دہشت گردی کے راستے سے ہٹا کر ایک روشن اور بہتر مستقبل کی طرف لے جائے۔ نوجوان وہ قوت ہیں جو کسی بھی معاشرے کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ ان میں وہ توانائی اور عزم ہوتا ہے جس سے دنیا بدل سکتی ہے۔ ہمیں ان نوجوانوں کو اپنے ملک، اپنے معاشرتی ڈھانچے، اور اپنے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا۔

 یہ وقت ہے کہ ہم سب اپنی ذاتی، سماجی، اور عالمی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کا خاتمہ صرف فوجی طاقت سے نہیں، بلکہ انسانی ہمدردی، محبت، اور انصاف کے ذریعے ممکن ہے۔ جب تک ہر انسان کو عزت، برابری، اور انصاف نہیں ملے گا، تب تک دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔

 آخرکار، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کی جڑیں صرف وہاں نہیں جہاں بم پھٹتے ہیں، بلکہ یہ ان جگہوں پر بھی موجود ہیں جہاں انسانوں کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں، جہاں مایوسی اور غم کا راج ہوتا ہے۔ جب ہم ان جڑوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوں گے، تو ہم دنیا کو ایک ایسا مقام بنا سکیں گے جہاں امن، محبت، اور انصاف کا راج ہو۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ دہشت گردی کا مقابلہ اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک ہم انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصد نہ بنائیں اور اپنے معاشروں کو ایسا بنانے کے لیے جدوجہد نہ کریں جو ہر انسان کے لیے محفوظ، انصاف پسند اور خوشحال ہو۔

مزیدخبریں