مائنس اور پلس کا کھیل

11:04 AM, 20 Jul, 2020

کاشف خان
آج کل مائنس اور پلس کے حوالے سے میری نظر سے ڈھیروں تحریریں گزری ہیں۔ یہ ساری تحریریں پاکستان کے جانے پہچانے کالم نگاروں نے تحریر کی ہیں لیکن تمام تحریریں صرف سیاست میں مائنس ون اور مائنس ٹو تک محدود ہیں۔ مائنس اور پلس کے حوالے سے جب بھی کالم نگار یا تجربہ نگار رائے دیتے ہیں تو صرف اسٹیبلشمنٹ کا نام لکھ کر/ لے کر قصہ ادھورا چھوڑ دیتے ہیں، جس سے عوام میں اسٹیبلشمنٹ کے بارے تصور جاتا ہے کہ وہ ادارہ جو مائنس اور پلس کے ذریعے آگے کو پیچھے اور پیچھے کو آگے کرنے کا کام کرتا ہے، اس کا نام آج تک میں نے نہ پڑھا اور نہ سنا ہے۔ صرف یہ سنا اور پڑھا ہے کہ مائنس اور پلس کا یہ کھیل اسٹیبلشمنٹ کھیلتی ہے۔

یہ ادارہ کون سا ہے؟

اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ مائنس ٹو سے مائنس ون کر کے پلس سائن لگا کر اسٹیبلشمنٹ اپنے گھوڑوں میں رسی ڈال کر پھر اسے اپنے تابع کر کے خوب استعمال کرتی ہے۔ یاد رکھنا جب تک اسٹیبلشمنٹ کے جی میں جی ہوگا اس وقت تک اس گھوڑوں میں رسی ہوگی پھر نا مائنس ہوگا نا پلس! خیر یہ تو سیاست ہے مائنس اور پلس کو نزدیک سے دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہو تو یونیورسٹی کی اسٹیبلشمنٹ کو دیکھیں۔ پھر آپ مائنس اور پلس کے معنی اور مفہوم کو بخوبی سمجھ جاؤں گے۔

ہر لیکچرر اور پروفیسر کے الگ الگ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ میری اگر یاداشت درست ہوں تو ایک دن کچھ ایسا واقعہ ہوا تھا کہ یونیورسٹی کے ٹیچر کلاس میں آکر کہنے لگا بس آپ سب کے مارکس میرے ہاتھوں میں ہیں، میں چاہوں تو مائنس کر کے آپ میں سے کسی کو بھی فیل کرسکتا ہوں اور اگر میں چاہوں تو پلس کے ذریعے آپ کے مارکس بڑھا سکتا ہوں۔ صاحب نے یہ بھی کہا کہ ہفتے میں دو کلاسز ہیں لیکن ہفتے میں صرف میں ایک کلاس لوں گا۔ باقی اگر کسی نے ایسا ویسا کیا تو اپنے اختیار سے اسے مائنس لیول پر لے جا سکتا ہوں۔

نتائج نوٹس بورڈ پر لگے تو دیکھا اس ٹیچر نے بالکل ویسا ہی رزلٹ بنایا تھا جیسا کہا تھا۔ یعنی کسی کو مائنس لیول پر اور کسی کو پلس لیول پر۔ میرے حق میں تو وہ اور بھی دو ہاتھ آگے نکل گیا تھا۔

مخلتف اخباروں کی نیوز سٹوریز اور فیچرز میں میں اکثر پڑھتا رہتا ہوں کہ یونیورسٹی کے پروفیسر/لیکچرر نے لڑکی سے یہ مطالبہ کیا ہوتا ہے کہ اگر آپ نے یہ نہیں کیا اور وہ نہیں کیا تو آپ کے پیپر کے مارکس مائنس میں جا کر آپ کا سال ضائع ہوسکتا ہے۔ ایسا سین میں نے بذات خود نہیں دیکھا ہے لیکن یہ ہوتا ضرور ہے۔

بس یہی سمجھیں کہ مائنس اور پلس کا یہ کھیل صرف سیاست دانوں کے ساتھ نہیں کھیلا جاتا بلکہ ملک کے فیوچر جنریشن جنہوں نے آگے جا کر ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنا ہے، ان کے ساتھ بھی ایک ایسے ہی درد ناک انداز میں کھیلا جاتا ہے کہ سٹوڈنٹ کرے تو کیا کرے۔
مزیدخبریں