کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب سے یہ وبا آئی ہے پی ٹی آئی کی حکومت نے ہر متنازع مسئلہ چھیڑا ہے، پولرائزیشن کے ماحول میں کمی نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ کیا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جنگ یا قومی آفت کی صورتحال میں جو اتحاد اور اتفاق رائے ہونی چاہیے جو خود بخود ہوجاتی ہے، اس میں بھی حکومت وقت ناکام رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی کی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا، اسے ساری سیاسی جماعتوں نے مسترد کیا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہمیں امید تھی یہ بجٹ وبا سے متعلق ہوگا اور ایسا بجٹ ہوتا تو ساری سیاسی جماعتیں اس سے تعاون کرتیں جیسا کہ جنگ میں تمام سیاسی جماعتیں تعاون کرتی ہیں۔ یہ جو بجٹ پیش کیا گیا اس سے لگتا ہے کہ کرونا پاکستان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں، پاکستان کے عوام کو اس سے کوئی خاص خطرہ نہیں اور بجٹ میں اس وبا کا مقابلہ کرنے، عوام کی صحت اور زندگی بچانے پر وسائل خرچ ہونے، ان کی معاشی صورتحال کو تحفظ دینے کی ترجیحات نظر نہیں آئیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ٹڈی دل کے حملے گذشتہ 25 برس میں سب سے بڑا حملہ ہیں، جس کے بارے میں پیپلزپارٹی اور حکومت سندھ، وفاقی حکومت سے اپیل کر رہی ہے،اس مسئلے کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ نہ ٹڈی دل کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ ہی کسان کو ریلیف پہنچانے کے لیے اقدامات کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ ہر صوبائی حکومت اپنے طور پر ٹڈی دل کا مقابلہ کرے اورہر صوبائی حکومت ایسا کر رہی ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ ایک عالمی وبا ہے، ہم امید کر رہے تھے کہ بجٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے ایک صحت پیکج، کووڈ پیکج دیا جاتا تاکہ ان کے محکمہ صحت کو سپورٹ ملتی جس سے ان کی ٹیسٹ اور علاج کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری ہیلتھ کیئر کی صلاحیت، ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں اس تیزی سے اضافہ نہیں کر پارہے تھے جس تیزی سے یہ وبا پھیل رہی تھی لیکن وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں سے تعاون نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی میں صحت کے لیے صرف نام کا 70 ارب روپے کا بجٹ رکھا اور کہتے ہیں کہ اسے کووڈ کے لیے مختص کیا گیا ہے لیکن اس کا جائزہ لیں تو وہ کرونا کے لیے، صحت کے نظام کے لیے نہیں بلکہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کے الیکشنز کے فنڈز ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ 70 ارب روپے جو کرونا کے لیے اور صحت کی سہولیات میں اضافے، ڈاکٹرز اور نرسز کی آسانی، عوام کی صحت و زندگی بچانے یا ریلیف کے لیے استعمال ہونے تھے وہ پیسہ ان کے ایم این ایز کے حلقوں کی سڑک بنانے، گٹر لگانے، ترقیاتی منصوبوں میں لگایا گیا جس کی ہم نے قومی اسمبلی میں بھی مذمت کی اور اب بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ صوبے خود وبا کا مقابلہ کریں اور سندھ کو وفاق کی جانب سے ملنے والی رقم میں 229 ارب روپے کی کٹوتی کردی، یہ ناانصافی دوسرے صوبوں کے ساتھ بھی ہوئی ہے، یہ وقت صوبوں سے تعاون کرنے کا وقت تھا۔ اس وقت مزدور طبقے، متوسط طبقے اور غریبوں کو مدد کی ضرورت ہے لیکن حکومت نے صحت اور معیشت میں کوئی ریلیف نہیں دیا۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا غربت مٹاؤ پروگرام جاری رہے گا، ہمارا زرعی شعبے کا بجٹ کسانوں اور چھوٹے کاروباروں کو قرضے فراہم کرے گا۔ اس قسم کے منصوبے صوبے میں غربت کے خاتمے کے لیے اہم ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا لیکن وزیراعظم نے وبا پر سیاست کی، ان کے وزرا اور ترجمانوں نے ہم پر تنقید کی، فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹروں کے خلاف بیانات دیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس ملک کے عوام اس وقت 18ویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ، لاپتہ افراد اور ٹارگٹ کلنگ پر باہر نکلتے ہیں تو کوئی نہیں سنبھال سکے گا۔ اس وقت حکومت میں ایک اتحاد سے چلنا چاہیے ہمارے بہت سے مسائل ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کو ان چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب غیر آئینی اقدامات کیے جاتے ہیں، اس کی تشکیل ہی غیر آئینی ہو تو نوٹی فکیشن بھی غیر آئینی ہوگا اور پی ٹی آئی حکومت ان غیرقانونی چیزوں کی بار بار نشاندہی کے باوجود ہمیں جواب نہیں دیتی تو ہم بھی مجبور ہوجائیں گے اور اس مسئلے کو عدالت میں لے جانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی شہباز شریف صحتیاب ہوتے ہیں تو بطور اپوزیشن لیڈر وہ آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے جس میں این ایف سی کا معاملہ زیر غور آنے کے بعد اپوزیشن کا موقف سامنے آئے گا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس وقت صوبائی سطح پر ملٹی پارٹی کانفرنسز منعقد کی ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ اس حوالے سے گذشتہ روز متحدہ اپوزیشن کا جو مشترکہ فیصلہ آیا تھا وہ تفصیلی تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی سمجھتی ہے اور ہمارا موقف رہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن موجود ہے، معاشرے کے ہر حصے میں موجود ہے لیکن کرپشن کے خاتمے کے لیے جو مہم شروع کی جاتی ہے ان کا ایک الگ مقصد ہوتا ہے ان دونوں چیزوں کو سنبھالنا پڑے گا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک طرف ہمیں کرپشن کا مقابلہ کرنا ہوگا نہ صرف بیوروکریسی، سیاست اور عدلیہ میں بھی کرپشن کے مسائل ہوں گے انہیں ایک جمہوری اور شفاف طریقے سے حل کرنا ہوگا لیکن ساتھ ساتھ وکٹمائزیشن، کیسز کا استعمال کر کے دوسروں پر دباؤ ڈالنے کا طریقہ جب تک جاری رہے گا تب تک کرپشن کا خاتمہ نہیں کرسکتے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ میں سپریم کورٹ سے اپیل کرتا ہوں کہ اس مسئلے کو اٹھائے، انتقام کے لیے بدنیتی سے، کرپشن کے دوسرے کیسز بناتے ہیں سیاستدان، ججز یا سول سوسائٹی کے لیے بنائے جانتے ہیں انہیں ختم کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر جج پر ریفرنس بن سکتا ہے تو پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جو معلومات لائے اس پر جے آئی ٹی بنے اور ججز کی جاسوسی ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس پر سپریم کورٹ کو جے آئی ٹی بنانی چاہیے۔