فاطمہ جناح کی موجودگی میں بستر مرگ پر پڑے محمد علی جناح کی ایمبولنس کا پٹرول ختم ہو جانا، یا انجن کی خرابی ظاہر کرنا، بیماری کی حالت میں سڑک کنارے گرمی و حبس میں گھنٹوں بے یارومددگار پڑے رہنا کیا یہ محض اتفاق تھا؟ یا اس کا پہلے سے ہی پلان کیا جاچکا تھا کے ضعیف العمر قائد حبس اور گرمی میں انتقال کر جائے۔
محترمہ فاطمہ جناح نے محمد علی جناح پر ایک کتاب ’مائی برادر‘ یعنی 'میرا بھائی' لکھی، لیکن اشاعت سے قبل اس کے چند صفحے غائب کر دیے گئے، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کے محمد علی جناح کی وفات کے بعد محترمہ کو سیاست سے دور رکھنے کیلئے ہرقسم کے گھٹیا حربے استعمال کیے گئے تھے۔
حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی حکومت اور انتظامیہ کسی صورت بھی نہیں چاہتی تھی کہ فاطمہ جناح آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔ اس کوشش میں وہ اتنا آگے بڑھ گئے کہ ریڈیو پاکستان سے ان کی تقریر کے دوران کچھ مواقع پر نشریات روک دی گئیں،جبکہ اس وقت ریڈیو پاکستان کا مؤقف یہی تھا کہ ٹرانسمیشن میں رکاوٹ کی وجہ اچانک بجلی فیل ہونا تھی، لیکن کوئی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ کیونکہ محترمہ کی موت پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے سائرہ ہاشمی ایک مصنفہ ہیں اور انہوں نے اپنی کتاب"ایک تاثر دوشخصیات" میں دعوٰی کیا ہے کہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا اور ان کے گلے پر نشانات تھے ناصرف یہ بلکہ ان کے بستر پر خون کے چھینٹے بھی پائے گئے۔
ایک وقت تھا جب مادر ملت کے قتل پر اخبارات میں اداریے لکھ کر تحقیقات کا مطالبہ ہوتا رہا اور یہ سوالات اٹھتے رہے کہ مادر ملت کا آخری دیدار لوگوں کو کیوں نہیں کرنے دیا گیا ،جنازے پر لاٹھی چارج کیوں کروایا گیا یہ سب وہ سوالات ہیں جن کا جواب جاننا بہت ضروری ہے۔
معروف قانون دان شریف الدین پیرزادہ نے مشرف دور میں کہا تھا کہ وہ محترمہ فاطمہ جناح کے قتل کے حوالے سے" چودہ اگست " کو اہم انکشافات کریں گے‘‘ لیکن وہ بھی بعد میں خاموش ہی رہے۔ جبکہ ایک اور انٹرویو میں شریف الدین پیر زادہ نے انکشاف کیا تھا کے قائد اعظم ؒ کے بھانجے اکبر پیر بھائی نے ایوب خان کو ایک درخواست دی تھی کہ چونکہ مادر ملت کو قتل کیا گیا اس لیے اس قتل کی تحقیقات کی جائیں لیکن ایوب خان نے قائد اعظم کے بھانجے کی یہ درخواست رد کر دی۔
سندھ کے ایک تاجر حاجی گل احمد نے بھی سندھ ہائی کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کی تھی جس میں وہی مطالبہ کیا گیا کہ مادر ملت کے قتل کی تحقیقات کی جائیں، لیکن تاحال کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔
ایک اور انکوائری رپورٹ جو مغربی پاکستان کے وزیر ِداخلہ قاضی فضل اللہ نے پیش کی تھی جس میں تفصیل سے موت کی وجوہات پر روشنی ڈالی گئی اور رپورٹ میں کہا گیا کے میت کو غسل دینے والی تین خواتین اور تجہیز و تدفین کرنے والا حاجی کلو تھا ان خواتین اور حاجی کلو کے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کے بدن گردن اور جسم پر زخموں کے نشانات تھے مگر اس رپورٹ کو سامنے ہی نہ لایا گیا۔
اس وقت کے اخبارات میں سیکنڑوں تحریریں موجود ہیں لیکن آج تک اس پر نہ کوئی صاف شفاف تحقیقات ہوئیں اور نہ ہی قوم کو اس بارے سچ بتایا گیا جسکی وجہ سے یہ معاملہ آج تک مشکوک تر بنا ہوا ہے۔
صد افسوس ہے کہ آج تک اس معاملے کو ذرا برابر بھی سنجیدہ نہیں لیا گیا، جناح کی خراب ایمبولینس سے لیکر مادر ملت کے قتل پر اٹھائے گئے تمام سوالات ہمیشہ کی طرح سوالیہ نشان بن کر رہ گئے مگر ایک حقیقت عیاں ہے کہ اب پڑھا لکھا باشعور نوجوان طبقہ غدار و محب وطن کا اصل فرق اچھی طرح جان چکا ہے۔