اب سے کچھ دیر قبل عمار علی جان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ انہیں انتہائی افسوس کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے کہ وہ ایف سی کالج میں مزید نہیں پڑھائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال کے آغاز میں ان کا کانٹریکٹ اسسٹنٹ پروفیسر سے تبدیل کر کے visiting faculty کا کر دیا گیا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں رہا ہے۔
عمار نے لکھا کہ 2016 میں (کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد) پاکستان آنے کے وقت انہوں نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ وہ ملک کی کسی سرکاری یونیورسٹی سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں۔ واپس آنے کے بعد انہوں نے لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں پڑھایا لیکن دونوں ہی مواقع پر انہیں ’قومی سلامتی‘ کی حفاظت کا بہانہ بنا کر نکال دیا گیا۔
’’اس موقع پر کچھ قریبی دوستوں اور ہمدرد اساتذہ نے مجھے ایف سی کالج میں ایک نوکری کے بارے میں بتایا۔ ایف سی کالج نے مجھے موقع دیا کہ میں کسی حد تک مالی استحکام حاصل کر سکوں، اپنا اکیڈمک کام کر سکوں اور مسلسل سرکاری خبر گیری سے کچھ دور رہ سکوں۔ بالآخر میں پاکستان میں پرسکون محسوس کر رہا تھا۔
لیکن طلبہ یکجہتی مارچ کے وقت یہ پھر سے تبدیل ہونے لگا جس کے باعث میرے اوپر انتشار پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔ مارچ کے بعد مجھ پر غداری کا مقدمہ بنا دیا گیا اور میرے ایک سابق شاگرد عالمگیر وزیر کو گرفتار کر لیا گیا۔ نامعلوم افراد نے ایف سی کالج انتظامیہ پر مجھے نوکری سے نکالنے کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ مجھے ریکٹر نے بلا کر کہا کہ ہر قسم کی عوامی سرگرمیاں بند کر دوں کیونکہ ایف سی کالج ایک انتہائی ’حساس‘ صورتحال میں تھا اور متنازع ہونا نہیں برداشت کر سکتا تھا۔ میں نے گذارش کی کہ میرے خلاف ایک بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا ہے جب کہ ایک سابق طالبِ علم ملک میں تعلیمی اصلاحات اور طلبہ یونینز کی بحالی کا مطالبہ کرنے پر جیل میں ہے۔ ایسے حالات میں میں اس شاگرد کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا، خاص کر جب ریاست کی جانب سے ایک شدید کریک ڈاؤن جاری ہے۔ میں نے واضح کیا کہ یونیورسٹی کو طلبہ اور اساتذہ کے مسائل کو اجاگر کرنا چاہیے، نہ کہ ریاستی تحفظات ہی کو ہمارے آگے دہرا دیا جائے۔
میں غلط تھا اور مجھے بتایا گیا کہ یا تو میں خاموش ہو جاؤں یا پھر یہ نوکری چھوڑ دوں۔ میں نے دوسرے آپشن پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایف سی کالج سے میری بہت خوبصورت یادیں وابستہ ہیں جہاں مجھے طلبہ اور اساتذہ کی جانب سے بے انتہا محبت ملی جو مجھ سے سیکھنے کے متمنی تھے اور مجھے چیلنج بھی کرتے تھے۔ میں اس وقت کے لئے شکرگزار ہوں جو میں نے یہاں گزارا، اس میں موجود عمارتیں، اس کے لان، اس کا کیفے اور میرا چھوٹا سا دفتر، یہ سب خوبصورت یادیں جو مجھے ابھی سے بہت پرانی لگنے لگی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان میں بطور استاد میرا سفر ایف سی کالج کے ساتھ سفر کے افسوسناک انجام پر ہی ختم ہو گیا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ جو لوگ اس ملک کو چلا رہے ہیں وہ لوگوں کو اپنا کام کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ ایک ایسا ٹیچر برداشت نہیں کر سکتے جو طلبہ سے ان کے نسل، مذہب اور صنف سے بالاتر ہو کر ہمدردی رکھتا ہے، اور نہ ہی ایسے اساتذہ اور طلبہ کو برداشت کر سکتا ہے جو ممنوعہ موضوعات پر آواز اٹھاتے ہیں۔
ہماری ریاست غیر متوقع مقابلوں اور اتحادوں سے خوفزدہ ہے۔ یہ چاہتی ہے کہ سب چیزیں اس کے حساب سے چلیں اور لوگوں کے پاس وہی کچھ کرنے کے مواقع ہوں جو یہ چاہتی ہے، اور اس سے ہٹ کر کچھ بھی ہو یہ اسے ناممکن بنانا چاہتی ہے۔
لیکن ہم شکست تسلیم نہیں کریں گے۔
ہم یہ کہتے رہیں گے کہ اس ملک کے عوام ہی اس کے اصل مالک ہیں، وہ نامعلوم افراد نہیں جو قانون کو بلا خوف توڑتے ہیں۔ ہم کسی ادارے میں رہ کر کام کرتے ہیں یا اپنی ذاتی حیثیت میں، یہ غیر اہم ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے نظریات تیزی سے پھیلنے والے ہیں اور ہمارے دشمن بھی یہ جانتے ہیں۔ مختصر دورانیے کی لڑائی میں وہ ہمارے لئے رکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں لیکن طویل جنگ میں فتح ہماری ہی ہوگی۔ اور وہ لوگ جو معاشرے سے اختلاف کو ختم کر دینے کی خواہش رکھتے ہیں، ان کی جگہ صرف تاریخ کے کوڑا دان میں ہے۔
کسی بھی عارضی مشکل کو ہم یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دے جس چیز کو ’وہ‘ ناممکن قرار دیتے ہیں، وہ واقعتاً ناممکن ہے۔ وہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ ناگزیر ہے۔‘‘