باورچی خانے کا عقبی دروازہ کھلا رہ گیا تھا۔ گزر جانے کا ہدف لیئے بے رحم بے حس ہواوں نے رزق خانے پر ہی حملہ کیا تھا۔ دروازہ کھلا رہنا وقت کی سازش تھی یا پھر شیطان کی خواہش؟ لیکن اسے کیا معلوم یہ سب تفصیل؟ اسے تو بس یہ معلوم ہے کہ تصویر جو اسے پسند تھی چھناک کی آواز سے ٹوٹ گئی ہے۔ اسے شاید بتایا بھی گیا ہے کہ اب تصویر کی باقیات کو سمیٹ کر آگے چل دیا گیا ہے۔ جانے والوں کی جگہ نئے آگئے ہیں کہ یہی ریت ہے نا یہاں کی؟ مگر وہ کیا کرے وہ تو وہیں رہ گیا ہے اسکے سوال وہیں رہ گئے ہیں اس کا شاید احتجاج وہیں رہ گیا ہے۔
وہ روز اس طرف کا رخ کرتا ہے۔ شام ڈھلے۔ جب سورج کوٹھی کی سرحدی دیوار کے دائیں کونے میں گھر بنائے سوکھے سفیدے کی اوٹ سے سنہری مگر اداس کرنوں کو خدا حافظ کہنے بھیجتا ہے تبھی آبادی کی جانب رخ کیئے کوٹھی کا گیٹ اپنی سست سی گڑگڑاہٹ کے ساتھ اسکی آمد کی اطلاع دیتا ہے۔ اسے سب راستے معلوم ہیں۔ راستے اس سے مانوس ہیں۔ شاید اسکے غم میں شریک بھی ۔ لیکن اسکا جواب نہیں دیتے۔ وہ لکڑی کے مرکزی دروازے کو قدرے زور لگا کر مشکل سے کھولتا ہے۔ اندر داخل ہوتا ہے۔ شام کا دھندلکا ماحول کو اپنی لپیٹ میں لیئے ہوئے ہے۔ اسے نظر آتا ہے کوئی اپنا مہمان خانے میں وہ اسکے پیچھے بھاگتا ہے آوازیں دیتا ہوا لیکن وہ پاس پہنچتا ہے تو جیسے سب کچھ دھند میں غائب۔۔ گرد سے اٹے صوفے ہیں اور قرینے سے پڑی میزیں ۔ مہمان خانے سے متصل کھانے کے کمرے میں روشنیاں جل رہی ہیں قہقہوں کی گونج ہے۔
چمچ اور پلیٹوں کے ٹکراو سے اٹھنے والی جلترنگ۔۔۔ وہ مانوس آوازوں کی طرف بھاگتا ہے۔۔ اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی کھڑکی سے باہر دھند میں جا غائب ہوا اب کھڑکی کے باہر دھند ہے اور اندر اندھیرا ۔۔۔ کھانے کی میز پر دھول اور کچھ الٹے رکھے ہوئے برتن۔۔۔ ساتھ ہی ہال کمرہ ہے وہاں بھی ہو کا عالم ہے۔ وہ ایک ایک کمرے میں جاتا ہے۔ چھوٹے کمرے میں اسکے ساتھ دو رنگی دیواروں والا کمرہ جس کے باہر سبزے کا خوبصورت نظارہ ہوا کرتا تھا۔ وہی جہاں بارات اتری تھی۔۔۔ اب خاموشی ہے۔۔۔ بس غسل خانے سے کچھ دیر بعد پانی کی بوند کی اختتامی آواز سنائی دیتی ہے۔
اس سے متصل مرکزی کمرہ جو اس کوٹھی کا زمام کار تھا۔ کبھی جہاں جہاں زندگی کو دوام ملتا۔ جو آتا اسے آرام ملتا۔ یہ کمرہ تو جیسے اسکے آنے پر روتا ہے۔ اس کی کھڑکی پر ایک مکڑی ہے جو اداسی کا جالا بنتی اسے ملتی ہے۔ وہ اس مکڑی کے پاس ضرور آتا ہے کہ شاید وہی اسکو کوئی جواب دے دے۔ مگر اسے کیا پروا؟ وہ تو بس اداسی بننے میں مصروف ہی ملتی ہے۔ کھڑکی کے پار ایک فیروزی رنگ کا دیو قامت آہنی حجرہ ہے۔ اس کے چاروں طرف جالی ہے اور آہنی تکونی چھت جو انگریزی ہٹ کی طرح دکھتی ہے۔ اس حجرے کی ایک جانب سرو کا طویل قامت درخت ہے دوسری طرف ترش پھلوں کے پودے اپنی شاخیں اس میں گھسائے دے رہے ہیں۔ اج اس حجرے میں شاید ایک قبر ہے۔
اسکو تعجب ہے کہ یہ مہینہ پہلے تو نہ تھی؟ وہ اس جانب عرصہ سے آیا بھی تو نہیں؟ شاید یہ ۔۔۔ وہ تجسس کے مارے باہر کو نکلتا ہے۔ ویسے بھی شام اب لد چکی اور کوٹھی اب وحشت کے شکنجے میں جا رہی ہے۔ وہ بھاگ کر حجرے تک پہنچتا ہے۔ انگور کی بیل چھائی ہوئی ہے۔ ہیں؟ اسکے اندر تو واقعی ایک قبر ہے۔ اور وہی تصویر ۔۔۔اسکی پسندیدہ تصویر جو اس بے رحم، بے حس آندھی میں چھناک سے ٹوٹ گئی ہے۔ آج یہ اندر راہدری سے کسی نے اٹھا کر قبر کے اوپر ٹانگ دی ہے۔ اس تصویر میں سب مانوس چہرے ہیں۔ وہ جن کو ڈھونڈنے وہ روز آتا ہے پر کوئی نہیں ملتا۔ ویسے یہ قبر کس کی ہے؟ شاید کوئی نہیں جانا چاہتا ہوگا؟ یہیں رہ جانا چاہتا ہوگا۔ فیروزی حجرے میں۔۔۔ انگور کی بیل تلے۔۔۔