امریکی جریدے بلوم برگ انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اگر آئی ایم ایف پروگرام نہ ملا تو ملک معاشی حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ پاکستان آئی ایم ایف سے اکتوبر میں نئے پروگرام پر مذاکرات کرسکتا ہے اور اس کے ساتھ ڈیفالٹ سے بچنے کیلیے دوست ملکوں سے بھی معاونت کی ضرورت ہے۔
بلوم برگ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہوا تو حالات بگڑ سکتے ہیں جبکہ پاکستان آئی ایم ایف سے اکتوبر میں نئے پروگرام پرمذاکرات کر سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی عدم موجودگی سے پاکستان کے ممکنہ ڈیفالٹ کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں آنے والے مالی سال میں ملک کے لیے مزید معاشی چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان کو جون کے آخر تک 900 ملین ڈالر اضافی ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جولائی سے دسمبر تک مزید 4 ارب ڈالر کی ادائیگی کا سامنا ہے اور اگر زرمبادلہ کے ذخائر 4 بلین ڈالر سے نیچے آ گئے تو ممکنہ ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کو اپنی مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے دسمبر تک ڈالر کی ایک بڑی رقم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
اکتوبر میں ہونے والے آئندہ انتخابات کے پیش نظر، آئی ایم ایف کے نئے بیل آؤٹ کے لیے بات چیت اس وقت کے بعد تک شروع ہونے کا امکان نہیں ہے۔ ایک باضابطہ معاہدے تک پہنچنے کا عمل بھی وقت طلب ہونے کی توقع ہے۔ نتیجے کے طور پر، یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے ذریعے مالی امداد کی حقیقی تقسیم دسمبر تک نہیں ہو گی۔
امکان ہے کہ درآمدی پابندیوں کو برقرار رکھنے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) شرح سود کو موجودہ شرح 21 فیصد سے زیادہ بڑھا دے گا۔ متوقع منظر نامے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سٹیٹ بینک دسمبر تک جوں کا توں برقرار رہے گا۔جون کے آخر تک آئی ایم ایف کی امداد کی بروقت آمد پر منحصر ہے۔
اگر درآمدی پابندیاں برقرار رہتی ہیں اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی جاری رہتی ہے تو توقع ہے کہ مالی سال 2024 میں افراط زر کی شرح موجودہ تخمینوں سے تجاوز کر جائے گی۔ اوسط افراط زر کی شرح تقریباً 22 فیصد ہو گی۔
زیادہ قرض لینے کی لاگت، خام مال کی درآمد پر رکاوٹیں، اور بڑھتی ہوئی افراط زر کا پیداوار پر نقصان دہ اثر پڑنے کا امکان ہے، جبکہ کھپت میں بھی کمی آئے گی۔