اسی طرح چین میں ڈاکٹروں نے کچھ سنگین حد تک بیمار مریضوں کا علاج صحت مند مریضوں کے بلڈ پلازما سے کیا اور یہ وہ طریقہ کار ہے جس کی تاریخ سپینش فلو کی عالمی وبا سے جا ملتی ہے، جو 1918 میں سامنے آئی تھی۔ اس کے پیچھے یہ خیال ہے کہ وائرس کے شکار افراد کے خون میں ایسی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں جو اس انفیکشن کی روک تھام میں مدد دے سکتی ہیں۔
امریکی یونیورسٹی کے ماہرین نے زور دیا کہ اس طریقہ کار کو اپنانے کے لیے کوئی تحقیق یا پیشرفت کی ضرورت نہیں، بلکہ اسے چند ہفتوں میں اپنایا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں روایتی طریقہ کار انحصار کرنا ہوتا ہے۔
محققین کے مطابق اس مقصد کے لیے کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کو صحت یابی کے بعد خون کا عطیہ دینا ہوگا، اگرچہ یہ بحالی صحت کا مرحلہ ہوتا ہے مگر اس دوران بلڈ سیرم (خون کا پلازما) میں بڑی مقدار میں ایسی اینٹی باڈیز ہوسکتی ہیں جو اس نئے کرونا وائرس کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہیں۔ ایک بار جب جسم وائرس کے خلاف ردعمل کے قابل ہوجائے گا تو ایسی اینٹی باڈیز کئی ماہ تک خون میں گردش کرتی رہیں گی اور ہو سکتا ہے کہ یہ دورانیہ انفیکشن کے بعد کئی برسوں کا ہو۔
محققین کے خیال میں یہ طریقہ کار صرف صحت یاب ہونے والے افراد کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ ان اینٹی باڈیز کو ایکسرٹ اور پراسیس کرنے کے بعد دیگر افراد کے جسموں میں انجیکٹ کر کے انہیں مختصر المدت تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے، جیسے کسی سنگین بیماری کے شکار افراد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، متاثرہ فرد کے صحت مند گھر والوں کے لیے یا طبی عملے کی قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔